پلیز سپریم کورٹ ایک اوراحسان کر دے
ہماری آنکھیں اگر نشوہ کے بعد بھی نہیں کھلتیں تو پھر ہم واقعی انسان کہلانے کے قابل نہیں ہیں، ہمیں پھر واقعی تاریخ میں تحلیل ہو جانا چاہیے، نشوہ صرف نو ماہ کی ایک بچی نہیں تھی، یہ ایک چیخ، ایک پکار، ایک ویک اپ کال اور یہ خطرے کا ایک سائرن بھی تھی، یہ معصوم بچی جان دے گئی لیکن یہ ہمارے اسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی نااہلیت اور انسان دشمنی کو ننگا کر گئی، ہمیں اگر اب بھی یہ ننگا پن نظر نہیں آتا اور ہم اگر اب بھی اسے ڈھانپنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر ہم سے بڑا بے وقوف، ہم سے بڑا نادان کوئی نہیں ہو گا اور ہم پھر تباہی، بربادی اور ذلت تینوں کو ڈیزرو کرتے ہیں۔
نشوہ گلستان جوہر کراچی کی نو ماہ کی معصوم بچی تھی، بچی کو ڈائریا ہوا، والدین پرائیویٹ اسپتال دارالصحت لے گئے، ڈاکٹرنے معائنہ کیا اور پوٹاشیم کلورائیڈ کا انجکشن تجویز کر دیا، یہ انجکشن مریض کو ڈرپ کے ذریعے تھوڑا تھوڑا دیا جاتا ہے، یہ چوبیس گھنٹے میں تحلیل ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت نرس کو معلوم تھی اور نہ ہی انجکشن لگانے والے وارڈ بوائے کو، ڈاکٹر کی چٹ نرس ثوبیہ کے پاس گئی اور نرس نے دیکھے، سوچے اور سمجھے بغیر پورا انجکشن سرنج میں بھرا اور وارڈ بوائے (میل نرس) معیز کو دے دیا اور معیز نے یہ انجکشن بچی کی نس میں لگا دیا، بچی نے چند لمحوں میں تڑپنا شروع کر دیا، اس کے جسمانی اعضاء اس دوران مڑ گئے اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
والدین نے کہرام برپا کر دیا، بچی کا سی پی آر ہوا، پتہ چلا "اوورڈوز" کی وجہ سے نشوہ کا 71 فیصد دماغ مفلوج ہو گیا، یہ "ویجی ٹیبل" بن چکی ہے، یہ خبر ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی، بریکنگ نیوز بنی اور پورے ملک میں گونجنے لگی، سندھ حکومت نے نوٹس لیا، بچی کو لیاقت نیشنل اسپتال منتقل کر دیا گیا، والدین نے دارالصحت اسپتال کی انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر کی درخواست دے دی، اسپتال کا مالک عامر چشتی بااثر شخص ہے، اس نے سفارشیں شروع کر دیں، ایس پی طاہر نورانی نے نشوہ کے والدین کو سمجھانا شروع کر دیا، آئی جی نے نوٹس لیا اور ایس پی طاہر نورانی معطل ہو گیا، وزیراعلیٰ نے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی، کمیٹی نے اسپتال کی انتظامیہ اور طبی عملے کو ذمے دار قرار دے دیا، دوسری طرف بچی شدید اذیت کاٹ کر 22 اپریل کو خالق حقیقی سے جا ملی مگر یہ اپنے پیچھے بے شمار سوال چھوڑ گئی اور یہ سوال سانپ بن کر پورے ملک کے اہل دل کو ڈس رہے ہیں اور یہ اس وقت تک ڈستے رہیں گے جب تک ہم اپنے سسٹم کو "امپروو" نہیں کر لیتے۔
میں جوڈیشل ایکٹوازم کے خلاف ہوں، میں سمجھتا ہوں عدلیہ کو انتظامیہ اور مقننہ کا کام نہیں کرنا چاہیے لیکن میں بھی نشوہ کا دکھ دیکھ کر سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں، سپریم کورٹ نے چند دن پہلے طلاق یافتہ والدین کے درمیان بچوں کی پرورش کا روڈ میپ جاری کیا، یہ روڈ میپ پاکستان کی تاریخ کے عہد ساز فیصلوں میں شمار ہو رہا ہے، یہ فیصلہ ہزاروں بلکہ لاکھوں بچوں کی زندگی بدل دے گا، یہ فیصلہ دس اصولوں کا مجموعہ ہے اور پاکستان کی تمام عدالتیں22 اپریل کے بعد اس روڈ میپ کے ذریعے طلاق یافتہ والدین کے بچوں کے معاملات طے کریں گی، یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے تین ججوں جسٹس مشیر عالم، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ نے جاری کیا، میری سپریم کورٹ سے درخواست ہے آپ اب مہربانی فرما کر ملک میں علاج کا روڈ میپ بھی جاری کر دیں۔
یہ روڈ میپ نشوہ جیسی ہزاروں لاکھوں بچیوں پر سپریم کورٹ کا احسان عظیم ہو گا، سپریم کورٹ اس معاملے میں کیا کر سکتی ہے؟میری چند تجاویز ہیں، سپریم کورٹ سے درخواست ہے یہ ان پر ہمدردانہ غور فرمائے، پہلی تجویز ادویات ہیں، سپریم کورٹ ادویات ساز کمپنیوں کو حکم جاری کردے یہ ادویات اور انجکشنز کی ڈبیاں تین رنگوں میں بنائیں، کم خطرناک ادویات سبزرنگ کی ڈبی میں پیک کی جائیں، پیلی ڈبیوں میں خطرناک ادویات پیک کی جائیں اور سرخ ڈبیوں میں انتہائی خطرناک ادویات پیک ہوں، پیلی اور سرخ ڈبیوں کی خوراک مریض کو اس وقت تک نہ دی جائے جب تک دو ڈاکٹرتصدیق نہ کر دیں، ملک بھر میں تمام انجکشنز پر سبز، پیلی اور سرخ لکیریں بھی لگا دی جائیں، یہ نشان دوا کی مقدار کو ظاہر کریں گے، سبز لکیروں کا مطلب ہو گا یہ مقدار نقصان دہ نہیں، پیلی لکیریں ظاہر کریں گی دوا کی مقدار خطرناک ہو چکی ہے اور سرخ کا مطلب ہو گا دوا کی مقدار اب انتہائی خطرناک ہو چکی ہے، یہ لکیریں ڈاکٹروں کو بھی محتاط کر دیں گی۔
نرسوں، وارڈ بوائز کو بھی اور مریض کے لواحقین بھی الرٹ ہو جائیں گے اور یہ انجکشن سے پہلے ڈاکٹر یا دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں گے، ہماری ستر فیصد آبادی ان پڑھ ہے، یہ لوگ ادویات پر لکھی ہدایات نہیں پڑھ سکتے تاہم یہ رنگ دیکھ کر آسانی سے ادویات اور ان کی مقدار کا فیصلہ کر سکیں گے، طبی عملہ بھی لکیروں اور رنگوں کی وجہ سے مزید الرٹ ہو جائے گا، سپریم کورٹ ادویات ساز اداروں کو پابند کردے یہ انتہائی خطرناک ادویات کو پلاسٹک کی چھوٹی تھیلیوں یا ساشے میں پیک کریں گے اور یہ ساشے اور یہ تھیلیاں مریض کے عزیز رشتے داروں کے سامنے کھولی جائیں گی، کمپنیاں انتہائی خطرناک ادویات بالخصوص انجکشن کی صرف اور صرف کم ترین مقدار مارکیٹ کریں، ایک انجکشن میں صرف ایک ڈوز ہونی چاہیے تاکہ طبی عملہ ایک وقت میں صرف ایک ڈوز لگا سکے، انجکشن کی بڑی پیکنگ پر پابندی ہونی چاہیے تاہم مجبوری ہو تو یہ سینئر ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر خریدی جا سکے اور نہ لگائی جا سکے۔
کمپنیاں اسی طرح نسوں، مسلز اور ڈرپ میں لگائے جانے والے انجکشنز کے رنگ بھی مختلف کر دیں، یہ رنگ طبی عملے کی رہنمائی بھی کریں گے اور مریضوں کے رشتے دار بھی آسانی سے سمجھ جائیں گے، یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے ان کے مریض کو کون سا انجکشن کہاں لگایا جا رہا ہے، طبی عملہ اگر نس کا انجکشن، ڈرپ یا ڈرپ کی دوائی نس یا مسل میں لگا رہا ہو گا تو یہ اسے روک کر ڈاکٹر سے پوچھ سکیں گے، یہ پوچھنا بھی ہر سال سیکڑوں جانیں بچا لے گا، سپریم کورٹ اسی طرح اسپتالوں میں ادویات کے استعمال کے چارٹ لگوا دے، طبی عملے کو چارٹ کے اصولوں کاپابند بنایا جائے، کوئی ہیلتھ ورکر کسی مریض کو اس چارٹ سے باہر دوائی نہ دے خواہ ڈاکٹر یا انتظامیہ ان پر کتنا ہی دباؤ کیوں نہ ڈال دیں اور جو ملازمین چارٹ کی خلاف ورزی کریں وہ کم سے کم دس سال کے لیے جیل بھی جائیں اور مریض کی پوری زندگی خدمت بھی کریں، سپریم کورٹ ڈاکٹروں کو بھی پابند کردے یہ ادویات کی مقدار واضح الفاظ میں لکھیں گے اور ادویات اگر خطرناک ہیں تو یہ پیلے یا سرخ پین سے اس کی مقدار کو انڈر لائن کریں گے، یہ فارمولا کیمسٹ کے لیے بھی لازمی قرار دے دیا جائے، لوگ جب ادویات خریدنے کے لیے آئیں تو یہ بھی مریض کو لازمی بتائیں یہ دوا خطرناک ہے۔
اس کی زیادہ مقدار آپ کی جان لے سکتی ہے، آپ دوا کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے دوسری بار ضرور پوچھ لیں، سپریم کورٹ میڈیکل ہسٹری کو بھی لازمی قرار دے دے، یہ ذمے داری نادرا کو سونپ دی جائے، نادرا ملک بھر کے تمام ڈاکٹروں، لیبارٹریز اور کیمسٹس کوڈیٹا انٹری کی سہولت دے دے، ملک بھر میں جب بھی مریض کسی طبی ایکسپرٹ کے پاس پہنچے، وہ سسٹم میں ڈیٹا انٹر کر دے، یہ ڈیٹا بعد ازاں ریاست کے کام بھی آئے گا، فارما سوٹیکل کمپنیوں کے بھی اور مریضوں کی میڈیکل ہسٹری بھی بنتی چلی جائے گی، مریض جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جائے، ڈاکٹر اس کی ہسٹری کھول کر پرانی ادویات اور بیماریاں دیکھ لے، اس سے مریض کا علاج بھی بہتر ہو جائے گا اور ریاست بھی مریض اور ڈاکٹر کے تعلق کے درمیان موجود رہے گی، یہ ہسٹری بعد ازاں عدالتوں، تعلیمی اداروں اور پارلیمنٹ کے استعمال میں بھی آ جائے گی، ریاست ڈیٹا دیکھ کر عوام کے لیے بہتر طبی فیصلے کر سکے گی۔
نادرا شناختی کارڈ کو میڈیکل نمبر بنا سکتا ہے اور یہ اپنے سسٹم میں ڈاکٹروں کو محدود انٹری دے کر پورا سسٹم ٹھیک اور سائنسی بنا سکتا ہے، طبی سہولیات میں فارما سوٹیکل کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا عمل دخل صرف 20 فیصد ہوتا ہے، 80 فیصد ذمے داری طبی عملے پر عائد ہوتی ہے اور ملک میں بدقسمتی سے طبی عملے کی ٹریننگ کا کوئی نیشنل ادارہ موجود نہیں، سپریم کورٹ حکومت کو حکم جاری کرے یہ طبی عملے کی ٹریننگ کا نیشنل پروگرام بنائے، پورے ملک کے کمپاؤنڈرز، نرسز، میل نرسز اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کو رجسٹر کرے، انھیں نیشنل لیول کے نمبر جاری کرے، ان کا ڈیٹا بیس بنائے اور پھر ان کی بھاری تنخواہیں طے کر کے ان کی ٹریننگ کا بندوبست کرے، یہ عملہ ملک کے کروڑوں مریضوں کی خدمت بھی کرے گا اور ہم انھیں باہر بھجوا کر اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی حاصل کریں گے اور آخری درخواست امریکا نے اڑھائی سو سال میں صرف 179 میڈیکل اسکولزبنائے لیکن ہمارے ملک میں اس وقت 114میڈیکل کالج ہیں۔
پاکستان میں 60سال میں27 میڈیکل کالج تھے لیکن پھر ڈاکٹر عاصم تشریف لائے اور تین برسوں میں میڈیکل کالجز 27 سے 102 ہوگئے، یہ میڈیکل کالج موت کے کنوئیں ہیں، یہ دس، پندرہ لاکھ روپے فیس لے کر کسی بھی نالائق طالب علم کو ڈاکٹر بنا دیتے ہیں، سپریم کورٹ حکومت کو حکم جاری کرے یہ سینئر ڈاکٹروں کا بورڈ بنا کر ان تمام میڈیکل کالجز کو بورڈ کے ماتحت کر دے اور یہ بورڈ جب تک منظوری نہ دے کوئی میڈیکل کالج اس وقت تک ڈاکٹروں کو ڈگری جاری نہ کرے، دوسرا حکومت پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے لیے ہاؤس جاب کی مدت دگنی کر دے تاکہ ڈگریاں خریدنے والے ڈاکٹر ہاؤس جاب کے ذریعے ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ سیکھ لیں، یہ کم از کم مریضوں کی جان تو نہ لیں۔
ہم نے اگر یہ نہ کیا تو آپ یقین کیجیے نشوہ جیسی بچیاں مرتی رہیں گی اور یہ ملک، ملک سے قصائی گلی بنتا چلا جائے گا، ہم میں سے جو بھی شخص اسپتال یا کلینک جائے گا وہ زندہ واپس نہیں آئے گا اور حکومت کو ہر اسپتال کے ساتھ قبرستان بنانا پڑ جائے گا چنانچہ پلیز سپریم کورٹ قوم پر ایک اور احسان کر دے، یہ ہمیں ڈاکٹروں سے بچا لے۔