Kya Wo Cheza Le Rahi Thee?
کیا وہ چیزہ لے رہی تھیں؟

سنہ 2014 میں وادئی استور میں واقع راما میڈوز کے آغاز میں محکمہ جنگلات کے موٹل میں رکا ہوا تھا۔ اس دور میں راما میڈوز میں دو ہی ہوٹل تھے۔ ایک PTDC دوسرا محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس۔ پشاور میڈیکل کالج برائے خواتین کا ایک گروپ راما میڈوز کے میدان میں اترا۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو سے دو سو لڑکیاں ہوں گی۔ ان کی مینجمنٹ کیمپ لگانے لگی مگر وہ واش روم کا مسئلہ حل کرنا بھول گئے۔ واش روم والا کیمپ نہیں تھا۔ پی ٹی ڈی سی میں داخلہ مکمل بند تھا۔ وہاں آرمی آفیسرز ٹھہرے ہوئے تھے۔ راما میڈوز میں سورج ڈھلتے ہی شدید سردی ہو جاتی ہے۔
اس گروپ کے مینجر ایک ڈاکٹر صاحب میرے پاس آئے اور اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے آپ کی مہربانی تھورا تعاون کر لیں۔ واش روم میرے کمرے سے ملحقہ تھا۔ میں نے صورت حال دیکھ کر اجازت دے دی۔ اب ٹولیوں کی ٹولیاں میرے کمرے کے باہر اترنے لگیں۔ لڑکیاں چار چار پانچ پانچ کے گروپ میں آتیں اور میرے کمرے میں واش روم کے باہر لائن بنا لیتیں۔ مجھے ہنسی آنے لگتی۔ میں کمرے سے نکل کر باہر لان میں جا بیٹھا کیونکہ وہ بھی شرما رہی تھیں۔
راما میڈوز میں کافی سردی تھی۔ ایک بار تو مجھے خود واش روم جانے کی طلب ہوئی تو میں نے لائن میں لگی لڑکیوں کو کہا کہ پلیز اگلی باری میری ہے۔ کیا ہی افلاطون لڑکیاں تھیں۔ ایک بولی "دیکھیں، ہم کتنی دیر سے لائن میں لگے ہیں، آپ تو کہیں بھی کھلے میں کر سکتے ہیں۔ پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ"۔۔ اس کا جواب سن کر میں اتنا ہی کہہ سکا " کہیں بھی؟"۔۔ بلآخر کمرے سے نکل کر چار پانچ سو فٹ کے فاصلے پر ایک چیڑ کے درخت کو ڈھال بنانا پڑا!
واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ واش روم کے استعمال پر دو لڑکیوں کے گروپس آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ زبانی کلامی بحث چلنے لگی۔ ایک گروپ کا خیال تھا کہ وہ پہلے آ کر لائن بنا چکی تھیں۔ دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ وہ ان سے پہلے یہاں موجود تھیں۔ لڑائی سیریس ہوگئی تو میں نے بیچ بچاؤ کرکے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کا کہا۔ ایک لڑکی اپنے گروپ مینجر کو بلا لائی۔ وہی ڈاکٹر صاحب آئے تو کیس پیش ہوا۔
اتنے میں ایک لڑکی میرے پاس آئی اور بولی "آپ خود یہاں دیکھ رہے تھے ناں کہ انہوں نے کیسی بدتمیزی کی اور ہم پہلے سے ہی موجود تھے تو آپ پلیز ڈاکٹر صاحب کو کہیں ناں کہ ہم ٹھیک بات کر رہے ہیں"۔ ایسا بولتے اس کی آنکھیں دو بار تیز تیز مٹکیں اور صورت بہت مسکین سی بن گئی۔ میں اتنا کھٹور دل نہیں ہو سکتا تھا کہ ایسی مسکین صورت کا دل توڑ دوں لہٰذا میں اٹھا اور بولا کہ لائن میری مرضی کے مطابق بنے گی۔ سب نے فیصلے کو قبول کر لیا۔ میں نے اسی لڑکی کو اشارہ کیا کہ آپ سب سے پہلی آئی تھیں پہلی باری آپ کی۔۔ وہ لائن میں آگے کھڑی ہوگئی اور باقی سب پیچھے۔
واش روم سے باہر نکل کر اس نے پھر میرا شکریہ ادا کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے آج کی شام میں ان سب کا باس ہوں۔ بس میرے ہاتھ میں اس ڈنڈے کی کمی ہے جس کے ایک سرے پر فنائل میں بھیگی ٹاکی لگی ہوتی ہے۔ وہ بھی بہت سیانیں تھیں۔ باری باری مسکرا کے دیکھتیں اور اپنا کام کر جاتیں۔ ایسا لگنے لگا جیسے میں لیٹرین کا گیٹ کیپر ہوں اور چونکہ ان کو فری سروس دے رہا ہوں تو یہ مسکرا مسکرا کے گیٹ کیپر کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔ احساس ہوتے ہی میں نے خود پر لعنت بھیجی اور کیمرا بیگ اٹھا کے فوٹوگرافی کرنے نکل گیا۔ ساری رات ٹولیاں آتی رہیں۔ فجر کے وقت میں نے موٹل چھوڑا۔ جیپ سٹارٹ کی اور راما کو خدا حافظ کہہ دیا۔
داستان یہاں ختم ہو جاتی تو نارمل تھا۔ یہ کتھا لکھنے کی نوبت نہ آتی۔ وقت کی ستم ظریفی کہہ لیجئیے۔ سنہ 2016 میں یعنی اس واقعہ کے دو سال بعد مجھے پشاور میڈیکل کالج برائے خواتین کی آرٹ اینڈ کلچر سوسائٹی کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ مجھے سمپوزیم میں شرکت کرنا تھی اور فوٹوگرافی اینڈ آرٹ پر گفتگو کرنے کو میں گیسٹ سپیکر تھا۔ خیر، لیکچر ہوگیا۔ سب ٹھیک رہا۔ اپنا لیکچر دے کر میں ایونٹ ہال سے باہر سگریٹ پینے کو نکلا۔ اتنے میں پانچ چھ سٹوڈنٹس کا گروپ آیا۔ بہت اچھے سے سب لڑکیوں نے سلام لی۔ پھر ایک بولی " سر، آپ وہی ہیں ناں جو راما میڈوز میں واش روم کے باہر بیٹھا کرتے تھے؟"۔ میں نے مُسکرا کے ابھی اتنا ہی کہا " جی ہاں وہی ہوں۔ " میری بات مکمل ہونے سے قبل دوسری لڑکی بول پڑی
What a marvellous success story you have. We all are totally inspired by your achievements in such a short period of time.
اتنا ہی ہوتا تو بھی ٹھیک تھا۔ تیسری بولی " سر کیا میں آپ کا یونیورسٹی میگزین کے لیے ابھی انٹرویو لے سکتی ہوں کہ کیسے آپ ایک واش روم کلینر سے بہترین آرٹسٹ بن گئے؟"۔
یہ سب سُن کر میرے طوطے اڑ گئے۔ پھر جب ان پر ساری کہانی کھُلی تو وہ سب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگئیں اور پھر مجھ سے معذرت کرنے لگیں۔ میں نے بھی برائے مزاح ہنستے ہوئے بس اتنا ہی کہا " کوئی بات نہیں مگر پلیز اب ساری یونیورسٹی کو حقیقت بتانا آپ پانچوں کی ذمہ داری ہے۔ میرے نام پر لگا دھبہ آپ ہی ختم کر سکتی ہیں"۔ آپ تو جانتے ہی ہیں لڑکیوں کو اطلاع آگے پہنچانا کس قدر عزیز ہوتا ہے اور ان کے ٹرانسمٹ کرنے کی رفتار بھی اگر روشنی کی رفتار کے مساوی نہیں تو کم بھی نہیں ہوتی۔ آناً فاناً ان پانچ چھ لڑکیوں نے ساری یونیورسٹی میں براڈ کاسٹ کر دیا۔
انہوں نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاہی۔ اس کا اندازہ مجھے اپنے پیج پر ملنے والے انباکس میسجز سے ہوا جن میں سٹوڈنٹس نے میرے کام کو خراج تحسین پیش کرنا چاہا تھا اور ساتھ ساتھ واش روم کی چوکیداری کرنے پر بھی پھر سے شکریہ ادا کر رہی تھیں البتہ اس کی بابت میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا آیا وہ واقعی شکرگزار تھیں یا ہلکی ہلکی ڈھولکی بجا کر چیزہ لے رہیں تھیں۔

