Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Beijing Ki Aik Shaam

Beijing Ki Aik Shaam

بیجنگ کی ایک شام

میرے کمرے میں دو کھڑکیاں ہیں۔ ایک سڑک کی جانب کھلتی ہے، دوسری پچھلی طرف ایک احاطے میں۔ سڑک صاف ستھری اور کشادہ لیکن بوجھل ہے۔ عمارتیں سرمئی اینٹوں سے بنی ہیں لیکن کہیں کہیں بارشوں نے اس رنگ میں سیاہی کا اضافہ کر دیا ہے۔ اکثر عمارتوں میں رہائشی فلیٹ ہیں اور یہ تین سے چار منزل اونچی ہیں۔ نقشہ یوں ہے کہ نیچے کوٹھڑی نما دکان ہے۔ دکان کا اگلہ حصہ شیشے کا ہے جس میں کئی رنگ کے پوسٹر اور بجلی کی روشنیاں لگی ہیں۔ اندر ڈھیروں سامان ٹھساٹھس بھرا ہوا ہے اور گاہکوں کیلئے قدم رکھنے کی جگہ بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔

باہر کی جانب سامنے ایک کپڑے کی چھت ہے جو حسبِ ضرورت لھولی یا بند کی جا سکتی ہے۔ دکان کے ساتھ ایک چوڑا دروازہ ہے جس پر لوہے کا جنگلہ نما گیٹ ہے۔ اس کے اندر سیڑھیاں دکھائی دے رہی ہیں جو اوپر واقع فلیٹس تک جاتی ہیں۔ ان گھروں کی کھڑکیوں میں تاریکی پھیلی ہے اور ان کے آگے بھی جنگلے ہیں جو اس تاریکی کو باہر سڑک پر بکھرنے سے روکتے ہیں۔ اکثر کھڑکیوں کے ارد گرد گملے منسلک ہیں جن کی مٹی سوکھ چکی ہے۔ سڑک کی تمام عمارتیں اسی نقشے پر ہیں۔ اگرچہ ان کے رنگ اور چہرے پر کھدے نقش و نگار جدا ہیں لیکن یہ چیز مشترک ہے کہ تمام رنگ میلے ہو چکے ہیں۔ پیشانی پر کھدے چینی حروف تقریباً مٹنے کے قریب ہیں اور بہت غور سے دیکھنے پر ہی نظر آتے ہیں۔ ایک عمارت کی آخری منزل پر بالکل درمیان میں گھڑی بھی لگی ہے جو پانچ بجے سے دس منٹ پہلے کا وقت بتا رہی ہے۔

سڑک پر عمارتوں سے آگے ایک قطار درختوں کی ہے۔ یہ درخت اپنا سب کچھ خزاں کی تیز ہواؤں کے حوالے کرکے خالی ہاتھ ہو چکے اور اتنے قریب ہیں کہ ان کی برہنہ شاخیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ شام کی سرد اور برفیلی ہوا ان ٹہنیوں سے رگڑ کھاتی ہوئی چلتی ہے لیکن ان کو بالشت بھر بھی اپنی جگہ سے ہلانے میں ناکام رہتی ہے۔ ان درختوں پر کھلنے والا آخری پتہ بھی تین ہفتے قبل موسم کی نذر ہو چکا لیکن یہ سیاہ شاخیں اتنی گھنی ہیں کہ یہ سیاہی مائل آسمان اور میری نظر کے درمیان ایک چھلنی کی طرح حائل ہیں۔

سامنے دکھائی دینے والی درجنوں کھڑکیوں میں سے کچھ نیم روشن ہیں۔ ایک بوڑھا آدمی میز پر بیٹھا کچھ پڑھ یا لکھ رہا ہے۔ اسی کمرے میں کبھی کبھار ایک بڑھیا کی جھلک نظر آتی ہے جو گھر میں ادھر سے اُدھر پھر رہی ہے۔ ایک کھڑکی میں کوئی کھانا پکا رہا ہے۔ اس کھڑکی میں چھوٹے چھوٹے اتنے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان سے حرکت کرنے والے انسان کو دیکھنا اور اس کی شناخت کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔

گھنٹے بھر میں دروازوں پر تالے پڑ جائیں گے۔ دکانیں اکثر پہلے ہی بند ہو چکی ہیں۔ سڑک سنسان ہے۔ اس پر درختوں کے بعد تیسری قطار گاڑیوں کی ہے۔ یہ گاڑیاں یہاں بالکل اسی طرح سیدھی قطار میں کھڑی رہتی ہیں۔ اگرچہ ان کے رنگ بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کو یہاں کون، کب اور کیوں لاتا ہے، یہ میرے لیے معمہ ہے۔ میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں یہاں کمرے شراکت پر ملتے ہیں۔ نیچے ہوٹل کے دروازے پر رنگ برنگی بتیاں ابھی ابھی روشن ہوئی ہیں۔ اس دروازے کے اندر ایک تنگ سی جگہ پر استقبالیہ ہے جہاں نیم اندھیرے میں ایک خوابیدہ آنکھوں والی لڑکی سارا دن چپ چاپ بیٹھی رہتی ہے۔ اس کے بالکل ساتھ زینہ ہے جو میرے کمرے تک بھی آتا ہے لیکن اس سے پہلے غسل خانہ ہے جس کے دروازے پر ایک مِنی اسکرٹ پہنے چینی لڑکی اپنے ہونٹوں پر سُرخی درست کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ ہر دفعہ آتے یا جاتے ہوئے اسے دیکھ سکتے ہیں۔

میرے کمرے میں چار پلنگ ہیں۔ یہ نیچی چھت والا ایک تنگ سا کمرہ ہے۔ احاطے کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں سامنے ایک بہت بڑی چمنی ہے جس سے ہر وقت سفید دھویں کے بادل اٹھتے رہتے ہیں۔ سامنے سڑک پر اندھیرا تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ کچھ فاصلے پر موجود لیمپ اس تاریکی سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ٹھنڈ کے باعث ان کی روشنی منجمد ہو کر اپنے ہی قدموں میں گِر پڑتی ہے۔ اس سڑک کا اب زندگی کے ساتھ فقط اتنا رشتہ باقی ہے کہ ذرا دور موڑ کے پاس ایک دھان پان بوڑھا کچھ گتے سمیٹ کر انہیں اپنی سائیکل کے پیچھے بندھے چھکڑے پر لادنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بوڑھا اپنا کام مکمل کر لے گا تو سڑک بالکل خالی ہو جائے گی۔ صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو چند منٹ کے وقفے سے آتے ہیں اور اپنی سائیکل دیوار کے ساتھ ٹکا کر کسی عمارت کی سیڑھیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

ٹھنڈ کے باعث کمرے کی کھڑکیاں بند ہیں اور میں تنہا ہوں۔ سفر کا موسم گزر چکا ہے اس لیے باقی کمرے بھی تقریباً خالی ہیں۔ باہر وقفے وقفے سے چلنے والی یخ بستہ ہوائیں تاریکی کے ساتھ مل کر وہ خوفناک منظر پیدا کرتی ہیں کہ کمرے کے اندر بیٹھے ہوئے بھی ایک سرد لہر پورے جسم میں دوڑ جاتی ہے۔ مجھے فرانز کافکا یاد آتا ہے اور اس کی کہانیوں کے بھیانک مناظر ذہن میں چلنے لگتے ہیں۔ ایک گنجان آباد شہر میں تاریکی، مستقل تنہائی اور شدید سردی کی یہ فضا ہی ان مناظر کو جنم دے سکتی ہے جن کے تصور سے ہی جی گھبرانے لگتا ہے۔ میں فیصلہ کرتا ہوں کہ کھڑکی سے ٹکراتی ان ہواؤں کے شور پر توجہ نہیں دوں گا اور کمرے سے باہر نکل کر ویران راہداری کو دیکھنے لگتا ہوں جہاں کبھی کبھی صفائی کرنے والی بڑھیا سے ملاقات ہوتی ہے۔ لیکن پھر ایک جھونکا شیشے سے یوں سر پٹختا ہے کہ میری نظر خود بخود اس طرف اٹھ جاتی ہے۔

اس موسم میں باہر جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور رات ابھی شروع ہو رہی ہے۔ میں اس کتاب سے دل بہلانے لگتا ہوں جو پچھلے ہفتے بدھ مندر میں ایک پجاری نے مجھے دی تھی۔ اس میں چند الفاظ انگریزی کے ہیں۔ انہی کو بار بار پڑھتے ہوئے میرا دھیان سڑک کی طرف بھی مُڑ جاتا ہے جہاں سے کسی سائیکل کے گزرنے کی آواز آتی ہے تو میں اٹھ کر دیکھتا ہوں لیکن ہر دفعہ سڑک خالی ملتی ہے۔ کرسی پر واپس آ کر میں پھر انہی الفاظ کو دہرانے لگتا ہوں۔

کیا پرماتما اس کے بھیتر ہی نہیں تھا؟ ہاں وہ ابدی روشنی اس کے اپنے من میں بہہ رہی تھی۔

Check Also

Mulki Zawal Ka Malba Madais Par Kyun?

By Abid Mehmood Azaam