Monday, 08 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Yahan Koi Nazriyati Nahi

Yahan Koi Nazriyati Nahi

یہاں کوئی نظریاتی نہیں

ہم لوگ اپنے نظریات کی پاسداری کرتے ہیں۔ جو لکھتا ہوں اپنے اصولوں کی بنیاد پر لکھتا ہوں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کا اول دن سے ناقد ہوں۔ کچھ واضح اصول ہیں۔ تب بھی ناقد تھا جب کیانی صاحب دس سالہ منصوبہ بنا کر مشرف کے بعد پیپلزپارٹی اور پھر نون لیگ کی حکومت ایڈجسٹ کر رہے تھے۔ جب راحیل شریف کی رخصتی قریب آنے پر راتوں رات سارے ملک کی شاہراہوں پر بینر لگ گئے تھے "جانے کی باتیں جانے دو"۔ تب بھی ناقد تھا جب باجوہ صاحب کو قوم کا ابو اور خالص جمہوری جرنیل بتایا جا رہا تھا۔ جب آصف غفور غداری کی سند بانٹتا تھا۔ موقف جن کو سوٹ کر جاتا ہے وہ اس پر بلے بلے کرنے آ جاتے ہیں۔ آج تحریک انصاف سے وابستہ لوگ فالو کرتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو سوٹ کر گیا ہے۔

کل میں نے مرشد کے کارناموں پر لکھا تو یہی گالم گلوچ کرنے لگیں گے۔ یہاں کوئی نظریاتی نہیں ہے۔ نہ تحریک انصاف، نہ نون لیگ نہ پیپلزپارٹی جو اس سسٹم میں تین بڑی مرکزی جماعتیں ہیں۔ ان سب کا ایک ہی اصول ہے۔ پاور کاریڈور کا حصہ بننا اور جرنیلوں سے سیٹنگ کرنا۔ جس کو جو تحریر سوٹ کرتی ہے وہ فالو کرنے لگتا ہے۔ میں صاف کہہ دوں آپ بالکل فالو نہ کریں۔ تتر بتر ہو جائیں۔ میں ہر پارٹی کے ہارڈ سیاسی کارکنوں سے بیزار ہوں۔ یہاں کسی کا کوئی نظریہ نہیں کوئی اصول نہیں۔ ایک ہی فارمولہ ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو پھر لفافے ہو، مردود ہو، لعنتی ہو۔

ڈھائی ماہ پہلے میرے خلاف بابا کوڈا نسل نے گھٹیا منظم مہم چلائی۔ میری فیملی کی تصاویر کا گھٹیا استعمال کیا۔ میرا شناختی کارڈ نمبر، فون نمبر اور گھر کا ایڈریس پبلک کیا۔ مجھے "مزہ چکھانے" یا "سافٹ وئیر اپڈیٹ" کرنے جیسے پیغامات بھیجے۔ میرے خلاف جتنا اکسا سکتے تھے انہوں نے اکسایا۔ ان کے بڑے بڑے بدزبان ایکٹویسٹس نے ماں بہن کی گالیاں دیں۔ مجھے جعلی سید (جوپی ٹی آئی میں نہ ہو وہ اصلی سید نہیں ہو سکتا) اور ہیرامنڈی کا دلال (جو ان کا باجا نہیں وہ یہی ہے) الغرض جو جو کہا جا سکتا تھا انہوں نے کہا۔

لکھتے ہوئے خیال رکھا کہ یہ کلٹ جو کچھ کرتا ہے کرتا رہے لیکن میں وہی لکھوں گا جو ٹھیک سمجھوں گا۔ ردِ عمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوں گا۔ گوکہ انہوں نے ہر انسان کو زچ کرکے اس مقام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کئی لکھنے والے انہی رویوں کے سبب رد عمل کا شکار ہوئے اور جواباً ان کو ان کی ہی گھٹیا زبان میں جواب دینے پر مجبور ہو گئے۔ میں اس سے بچنا چاہتا تھا۔ آج بھی جو تحریر ان کو سوٹ کرتی ہے یہ اس کو پھیلاتے ہیں، شئیر کرتے ہیں۔ جو سوٹ نہیں کرتی اس پر بدزبانی برتنے آ جاتے ہیں۔ یہ لکھنے والوں کا اس سماج میں المیہ ہے۔ جو کسی کی سائیڈ نہیں لے گا وہ ہر جانب سے ایسے روئیے بھگتے گا۔

کسی نے اپنا ماضی کا آئینہ نہیں دیکھا۔ نہ اسٹیبشلمنٹ دیکھنا چاہتی ہے نہ آج کے انقلابی یا اتحادی۔ آج ہم جو کچھ بھگت رہے ہیں وہ انتہا پسند رویوں کا نتیجہ ہے۔ آج کا منظر نامہ صرف دو جملوں کے بیچ کی داستان ہے۔ ارسلان بیٹا اسے غداری سے لنک کر دو۔۔ ڈی جی صاحب اسے بھارت سے لنک کر دو اور بس۔ سیدھی بات کوئی نہیں سننا چاہتا۔ کوئی برداشت نہیں کرتا۔ سیاسی مشتعل جتھوں سے دستار بچائیں تو قومی سلامتی کے محافظ شلوار اتارنے کے در پے ہو جاتے ہیں۔ اس سماج میں آگہی نرا عذاب ہے۔

میں نے نون لیگ کے کارکنان، پیپلزپارٹی کے جیالوں کی بدزبانی بھی بھگتی ہے۔ چونکہ وہ سوشل میڈیا پر نہ اتنے منظم ہیں نہ جتھوں کی صورت زیادہ تعداد میں ہیں اس لیے ان کی جانب سے منظم مہم نہیں چل سکی یا وہ نہیں چلا پائے۔ البتہ ٹائیگروں کو میں نے بہت برداشت کیا ہے اور ان کی حرکات کو اگنور کرکے چلتا رہا ہوں۔ وہی کہتا رہا جو کہنا چاہا۔ یہاں سیاسی نصاب یکساں ہے۔ نرسری ایک ہی ہے۔ بدزبانی کسی ایک کا ہی خاصہ نہیں۔ جو زیادہ تعداد میں ہیں وہ بس زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ شخصی رومانس کا شکار ہجوم ہے۔ کسی کے پاس نہ اس ملک کی بقا و فلاح کا کوئی ایجنڈا ہے نہ منشور ہے۔ نہ ہی فالورز کو منشور یا فلاح سے غرض ہے۔

المیہ تو یہ بھی ہے اگر آپ ایران کی پالیسیوں کے ناقد ہیں تو آپ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آل سعود کے ناقد ہیں تو آپ رافضی شیعہ ہیں۔ اگر امریکہ کے خلاف ہیں تو آپ کنرویٹیو مسلم ہیں۔ اگر آپ تینوں کے خلاف ہیں تو آپ تینوں طبقہ فکرکے انڈر اٹیک ہیں۔

اگر آپ تحریک انصاف کی پالیسیوں کے ناقد ہیں تو آپ پٹواری ہیں۔ اگر نون کے ناقد ہیں تو آپ یوتھیئے ہیں۔ اگر پی پی کے ناقد ہیں تو آپ دائیں بازو کے آلہ کار ہیں۔ اگر فوج کی دخل اندازی کے خلاف ہیں تو آپ ملک دشمن ہیں۔ اگر آپ ان سب کے خلاف ہیں تو آپ ان سب کی طرف سے انڈر اٹیک ہیں۔

میں پہلے متحدہ ہندوستان میں تھا تو مجھے ہندووں سے ڈر تھا۔ آزاد ہوا تو شیعہ کو سنی سے ڈر ہے۔ سنی کو شیعہ سے۔ دونوں کو دیوبندیوں سے۔ دیوبندیوں کو بریلویوں سے۔ بریلویوں کو ان سب سے۔ مہاجر کو پٹھان سے۔ پٹھان کو پنجابی سے۔ پنجابی کو بلوچی سے۔ بلوچی کو فوجی سے۔ فوج کو ہندوستان سے۔ ہندوستان کو لشکر طیبہ اور اس جیسی دوسری جماعتوں سے۔ سیاسی لوگوں کو مذہبی جماعتوں سے۔ مذہبی جماعتوں کو لبرلز سے۔ لبرلز کو انتہا پسند لوگوں سے۔ نہیں ہے تو بس کسی کو خدا کا ڈر نہیں ہے۔ واقعی آزاد مملکت میں سب آزاد ہیں۔ ہم سب کچھ ہیں بس پاکستانی نہیں ہیں، بالکل بھی نہیں، رتی برابر بھی نہیں۔

ہوتے ہوتے، عمر ڈھلتے ڈھلتے، چلتے چلتے، ایک وقت آتا ہے جب ہر باشعور انسان، ہر سوچنے سمجھنے والا انسان اس معاشرے سے تھک جاتا ہے۔ پھر وہ سب کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ میری تو خواہش ہی یہ رہی جو طارق عزیز کی نظم ہے جس کا عنوان ہے "یوٹوپیا"۔ یوٹوپیا یعنی ایسی جنت ارضی جو شاید کہیں وجود نہیں رکھتی مگر جس کے وجود رکھنے کی خواہش ہو۔ افسانوی دنیا۔ طارق عزیز نے نظم کو بالکل ٹھیک عنوان دیا تھا۔ شاید ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

جی چاہندا اے موت توں پہلاں
ایسا نگر میں ویکھاں

جس دے باسی اک دوجے نال
ذرا نہ نفرت کردے ہون

جس دے حاکم زَر دے پچھے
سپاں وانگ نہ لڑدے ہون

جتھے لوکیں مرن توں پہلاں
روز روز نہ مردے ہون

Check Also

Balti Larkiyon Ka Qatal Bhi Maaf?

By Tayeba Zia