Moscow Se Makka (3)
ماسکو سے مکہ (3)

ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منور دمکتے ہوئے مینار دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دور پہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباََ نصف کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ اتنی وسیع و عریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول ﷺ ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیر لگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصر راستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کر سیدھے چلتے جاؤ تو مقام مقصود پا لو گے۔
ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اور وہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگر دو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہو جائے اور آپ تیسرے شخص ہوں تو شرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہو جائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیر و شکر ہو کر آپ کو بھول جاتے ہیں۔ چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل در معقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔
موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اور وہ پاکستان سے حجاج اور معتمربن کے اپنے گروہ لے کر آتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور تیز تیز قدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے گیا جہاں سنگ مر مر کی سلوں کا فرش تھا اور کچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روز معلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکار طور پر کھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفر حج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات تو حاصل کر ہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطار میں شامل ہو چکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی "حجّی! حجّی! چلو! آگے! کہتے جارہے تھےاور ہاتھ سے آگے نکلنے کا اشارے کر رہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اور مرقد بھی شاید کہیں نیچے ہو مگر جسم میں ایڈرینالین کا وفور تھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہور پذیر نہ ہوئی ہوں۔
میں نے پر سکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرور کونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اور اسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گزرتا ہوا پھر روضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطار سے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔
میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کر ایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آواز میں "یا حجّی" کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑ کر دعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگر کسی قبر پہ فاتحہ بھی پڑھنی ہو تو رخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرور کہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پرور یعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اور میں گفتگو یا تحریر کو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اور جذباتی بنانے سے بھی گریز کرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرور ہونے کی بجائے تسکین آور تھی۔ جسے روح پرور کہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ "یا" کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس "یا" کے ساتھ نبی ﷺ کے حاضر یا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گزرتے ہوئے "السلام علیکم یا اہل القبور" ہی کہا جاتا ہے۔
دوسرا سوال جو پریشان کر رہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اور سسر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اور دو قدم آگے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اور بریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تو مجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
جاری ہے۔۔

