Darbar Kal Bhi Lagte Thay Aaj Bhi Lagte Hain
دربار کل بھی لگتے تھے آج بھی لگتے ہیں

آج سے چودہ سو سال پہلے یزید کا دربار تھا آج ایک اور دربار ہے لباس بدلے ہیں نام بدلے ہیں خطبوں کی زبان بدل گئی ہے مگر دربار کی فضا وہی ہے، خاموشی وہی ہے اور حق سے منہ موڑنے کا ہنر بھی وہی۔ تاریخ شاید کتابوں میں دفن نہیں ہوتی وہ زندہ رہتی ہے اور جب حالات سازگار ہوں تو خود کو دہرا لیتی ہے۔ یزید کے دربار میں مسئلہ یہ نہیں تھا کہ سچ معلوم نہیں تھا مسئلہ یہ تھا کہ سچ بولنے کی قیمت بہت زیادہ مہنگی تھی آج بھی مسئلہ یہی ہے۔ کوئی ایک مولوی کوئی ایک صاحبِ دستار کھڑا ہو کر یہ سوال نہیں کرتا کہ جناب۔ یہ تاحیات استثناء کس شریعت کی رو سے جائز ہے؟ کون سا قرآن کون سا فقہی باب اور کون سی سنت ظلم کو دائمی تحفظ دیتی ہے؟ سوال اس لیے نہیں اٹھتا کہ سوال کرنے سے دربار کا بادشاہ ناراض ہو جاتا ہے اور دربار کی ناراضی آج کے مذہبی کاروبار میں سب سے بڑا خسارہ سمجھی جاتی ہے۔
کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ملک کے بڑے ملاؤں کو میرے پاس لے آئیں جب ملاں آئے تو اس نے ان سے کہا کسان حکومت کے لیے گندم چاول وغیرہ اگاتے ہیں۔ گوشت، ڈیری فارمرز، درزی اور دیگر چیزیں بنانے والے اپنے لوگوں اور اپنی حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کو ہی کار آمد کام کرتے ہیں آپ اپنی حکومت اور اپنی قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ ملاؤں نے کہا ہم آپ کے اور اپنے لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ کمال اتاترک نے پھر انہیں سمندری سفر کی دعوت دی اور ایک ملاح کو حکم دیا کہ وہ جہاز کو بیچ سمندر میں چھید کر دے۔ سمندر کے بیچوں بیچ ملاؤں نے جب جہاز میں سوراخ دیکھا اور جہاز میں پانی بھرتا دیکھا تو وہ سب چیخنے لگے کشتی کے نگہبانوں نے ملاؤں سے کہا کہ وہ دعا کریں تاکہ جہاز میں وہ سوراخ بند ہو جائے۔ ملاؤں نے غصے میں آکر بلند آواز سے جواب دیا کہ کبھی دعا سے بھی سوراخ بند ہوا تو ملاحوں نے کہا اس پانی کو ہمیں جہاز سے نکالنا ہوگا ورنہ ہم سب مارے جاہیں گے۔
کشتی کے ملاحوں نے کچھ بالٹیاں ملاؤں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور کہا کہ وہ لگاتار پانی نکالتے رہیں ملاوں نے بغیر رکے جہاز سے پانی نکالنا شروع کر دیا۔ ملاحوں نے جہاز کو واپس موڑا اور تیز رفتاری سے ساحل پر واپس پہنچا دیا۔ سب ملاں تھکن سے ایک کونے میں گر گئے۔ کمال اتاترک ان سے پھر ملنے آیا ان کی طرف متوجہ ہوا کہا اب آپ لوگ سمجھ گئے ہونگے کہ ہمیں آپ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں آپ کو ملک و قوم کے لیے کچھ کام بھی کرنا ہوگا تاکہ آپ کے فائدے عوام اور حکومت تک پہنچیں کام کے سوا کوئی ملک دعاؤں سے ترقی نہیں کرتا اور آپ ملاؤں نے ہمیشہ مذہب کو اپنے ذاتی فائدوں اور اپنی دکانوں میں سجا کر غریب اور جاہل طبقے کے لیے استعمال کیا ہے۔
یہ واقعہ چاہے تاریخ کے سخت پیمانوں پر پورا اترے یا نہ اترے اپنی معنویت میں ایک مکمل تمثیل ہے اور تمثیلیں کبھی محض واقعات نہیں ہوتیں، وہ آئینہ ہوتی ہیں کمال اتاترک کا یہ مکالمہ دراصل ایک سوال ہے جو ہر عہد کے دربار، ہر منبر اور ہر صاحبِ دستار کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔ اسلام ظالم کے سامنے جھکنے نہیں کھڑا ہونے کا درس دیتا ہے مگر تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کھڑا ہونے کی جگہ دعا نے لے لی اور دعا بھی ایسی جو عمل سے خالی۔ اتاترک نے جب ملاؤں سے پوچھا کہ تم قوم اور ریاست کے لیے کیا کرتے ہو تو جواب آیا ہم دعا کرتے ہیں یہی جواب ہمیں یزید کے دربار میں بھی سنائی دیتا ہے یہی جواب آج کے درباروں میں بھی گونجتا ہے فرق صرف زبان کا ہے۔ منطق وہی ہے ہم ذمہ داری سے بری ہیں کیونکہ ہم دعا کے محافظ ہیں سمندر میں سوراخ شدہ جہاز دراصل ایک ریاست کی علامت ہے ایک ایسی ریاست جس میں ناانصافی، بدعنوانی، غیر قانونی استثناء اور طاقت کی عبادت کے سوراخ ہو چکے ہوں۔ ایسے میں دعا اگر بالٹی نہ بنے اگر ہاتھ حرکت میں نہ آئیں تو جہاز ڈوبتا ہی ہے۔ جب ملاؤں نے دیکھا کہ دعا سے سوراخ بند نہیں ہو رہا تب انہیں پہلی بار سمجھ آئی کہ بقا کے لیے عمل لازم ہے یہی وہ نکتہ ہے جہاں مذہب اور تاریخ آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یزید کے دربار میں بھی سب کچھ ڈوب رہا تھا اخلاق، عدل، خلافت کی روح مگر درباری خاموش تھے اگر کسی نے کچھ کیا تو وہ امام حسینؑ تھے جنہوں نے دعا پر اکتفا نہیں کیا، انکار کیا۔ کھڑے ہوئے قیمت ادا کی باقی سب یا تو دعا کے پردے میں چھپ گئے یا مصلحت کی بالٹی الٹا ہاتھ میں پکڑ لی۔ آج کے دربار میں بھی وہی منظر ہے آئین میں سوراخ ہے، قانون میں دراڑ ہے انصاف میں پانی بھر رہا ہے مگر درباری علماء کہتے ہیں ہم دعا کر رہے ہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم سوال اٹھا رہے ہیں ہم غیر اسلامی استثناء کے خلاف کھڑے ہیں، ہم ظلم کے جواز سے انکار کرتے ہیں کیونکہ سوال اٹھانا محض زبان نہیں مانگتا کردار مانگتا ہے اور کردار سب سے مہنگی شے ہے جو آجکل درباری ملا مین نہیں۔
اسلام گواہی مانگتا ہے آسائش نہیں قربانی مانگتا ہے استثناء نہیں جو لوگ ظالم کے سامنے سر جھکا کر بخشش کے طلبگار ہیں انہیں پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے تاریخ کے کٹہرے میں داڑھی کی لمبائی نہیں پوچھی جاتی کردار کا وزن پوچھا جاتا ہے اور تاریخ یہ ہم سب کو جانچنا خوب جانتی ہے۔ ہم نے دربار میں حاضر تمام ملاؤں کو دیکھا سنا سوائے خوشامد کے منہ سے کوئی دوسرا لفظ نہیں نکلا کسی نے دبے لفظوں سے یہ بھی نہیں پوچھا حضور اگر آپکی شان میں گستاخی نہ ہو تو ہمیں یہ بتاتا دیں آپ خود کہتے ہیں ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو پھر یہ ارض وطن میں یہ تماشہ کیوں ہے یہ استشنی کیسا یہ حکومتوں کا تختہ الٹانا یہ مارشل لاء کیسا حضور بتائے۔۔

