ڈی جی آئی ایس پی آر کی طیش بھری پریس کانفرنس

بلڈپریشر پر قابو پانے کی کاوشوں میں مصروف ہوں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے آپ سے چھٹی کی درخواست کی تھی۔ قارئین کی اکثریت نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں کے ذریعے وہ درخواست دعائیں دیتے ہوئے منظور کرلی۔ ہمارے ہاں مگر خود کو دورِ حاضر کے جماندرو انقلابی تصور کرتے لوگوں کا ایک گروہ بھی ہے۔ وہ مجھ جیسے بڑھاپے میں داخل ہوئے پرانی وضع کے تمام صحافیوں کو لفافہ، پکارتے ہوئے انھیں پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
ان میں سے چند نے میرا فون نمبر بھی حاصل کرلیا۔ جو نمبر میرے فون میں محفوظ نہ ہوں وہاں سے آئی کال مگر سننے کی عادت نہیں۔ براہِ راست طعنوں سے لہٰذا محفوظ رہا۔ وائس میسجز کے ذریعے ضمیر فروش، صحافی کی مذمت البتہ وصول کرلی۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ میں جھوٹ لکھنے کے ذریعے، پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کا دھندا چھوڑ کیوں نہیں دیتا۔ ایسے مہربانوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کہ بغیر لکھے روزمرہ زندگی کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوتا تو نجانے کب سے یہ دھندا چھوڑ چکا ہوتا۔
بلڈپریشر کے بے قابو ہونے کے بعد جبکہ میرے پاس یہ کالم نہ لکھنے کا ٹھوس جوازبھی مل گیا ہے۔ جس بھی ڈاکٹر سے رابطہ ہوا تو اس نے میرے مختلف النوع ٹیسٹوں کی رپورٹ بغور پڑھنے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ میرے طبی مسائل کی واحد وجہ دل ودماغ پر چھائی اداسی اور بے قراری ہے۔ ضرورت سے زیادہ سوچنا بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ کاش کہ سوچے بغیر آپ ایک سطر بھی لکھ سکتے۔
عمر تمام صحافت کی نذر کی ہے۔ اس دوران 1977ء سے 2022ء تک حکومتوں کو بنتے اور گرتے دیکھا ہے۔ کئی برسوں تک بہت ہی باخبر، تصور ہوتا صحافی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوکر کالم نگار بن جائے تب بھی قارئین اس سے سیاسی معاملات ہی پر تبصرہ آرائی کی توقع رکھتے ہیں۔ اتنے ناغوں کے بعد قلم اٹھایا ہے تو واجب وجوہات کی بنیاد پر دیرینہ پڑھنے والے یہ جاننا چاہ رہے ہوں گے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جمعہ کے روز ہوئی طیش بھری پریس کانفرنس کے بعد کیا ہوگا۔ غضبناک پریس کانفرنس کی وجوہات بے شمار ہیں۔
9مئی 2023ء کے بعد سے جمع ہوتا لاوا مگر بانی تحریک انصاف کی ایک بہن کی جیل میں ہوئی ملاقات کے بعد بالآخر پھٹ گیا۔ میری معلومات کے مطابق مذکورہ ملاقات 20منٹ سے زیادہ طویل نہ تھی۔ اس کے بعد مگر جس انداز میں لندن سے سکائی نیوز کی افغان نژاد یلدا حکیم نے اس ملاقات پر ایک بھرپور شو کیا جس نے مقتدرہ کو یہ سوچنے کو مجبور کردیا کہ کافی منتوں ترلوں کے بعد ایک بہن کی بھائی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ہوئی ملاقات کو ایک مخاصمانہ بیانیہ فروغ دینے کے لیے نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ ملاقات سے قبل نوٹیفکیشن، کی بنیاد پربھی کئی داستانیں گھڑی گئی تھیں۔ ان کے بھڑکائے غصے کے بعد بہن کی بھائی کے ساتھ ہوئی ملاقات کی بنیاد پر جو بیانیہ تشکیل دیا گیا اس نے تحریک انصاف کے لیے ریاست کے طاقتور ترین ادارے کے ساتھ شو ڈائون والی صورتحال کھڑی کردی ہے۔
جو پریس کانفرنس ہوئی اس کی حمایت اور مخالفت میں جو شور برپا ہے اس کے دوران یہ حقیقت قطعاً نظرانداز کی جارہی ہے کہ ایک بہن کی بھائی سے ملاقات کی بدولت بنائے بیانیے کے فوراً بعد واشنگٹن سے یہ خبر بھی آئی تھی کہ امریکا کے 44اراکین پارلیمان نے وزیر خارجہ مارکوروبیو کو ایک چٹھی لکھی ہے۔ اس خط کا کلیدی مقصد ریاستِ پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کے چند فیصلہ کن افراد کو امریکی پابندیوں کا نشانہ بنانا ہے۔ جو چٹھی لکھی گئی ہے اس پر ٹرمپ انتظامیہ فی الحال غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گی۔
حال ہی میں اس انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی پالیسی، دنیا کے روبرو رکھ دی ہے۔ اسے غور سے پڑھیں تو حالیہ تاریخ میں پہلی بار امریکا کی کوئی حکومت واضح انداز میں یہ اعلان کرتی سنائی دیتی ہے کہ دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالے سے اسے ان ممالک میں انسانی حقوق یا جمہوریت کی فکر لاحق نہیں۔ پاکستانیوں کو اگرچہ ایسے اعلان کے بغیر بھی جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ادوارِاقتدار کی بدولت جبلی طورپر امریکا کی جمہوریت سے محبت، اب تک خوب سمجھ لینا چاہیے تھی۔ اراکین کانگریس کے لکھے خطوط البتہ بوقتِ ضرورت پاکستان کی کسی حکومت پر دبائو ڈالنے یا بڑھانے کے لیے یقیناََ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
ذاتی طورپر میں نہایت خلوص سے اس امر پر تاسف کا اظہار ہی کرسکتا ہوں کہ ریاستِ پاکستان کے طاقتور ترین ادارے اور عوام میں خواہ جذباتی وجوہات کی بنیاد پر ہی سہی ایک مقبول ترین جماعت کے مابین انگریزی محاورے والے Either/or کی صورتحال نمودار ہوگئی ہے۔ تیر کمان سے مگر نکل چکا ہے اوراب ہمیں اگلے قدم، کے لیے ذہنی طورپر تیار رہنا ہوگا۔ یہ لکھنے کے بعد مزید کہنے کو مجبور ہوں کہ اگلا قدم، اٹھانے میں پیش قدمی کی قوت تحریک انصاف میں فی الوقت مفقود ہے۔ 26نومبر 2024ء کے دن ریاستی قوت کے ہاتھوں لگے جھٹکوں کو یہ جماعت ابھی تک بھلانہیں پائی ہے۔ اگلا قدم، میری دانست میں لہٰذا ریاست، ہی اٹھائے گی۔ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے تحریک انصاف کے حامی اور مخالف خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں لیکن گورنر راج کا نفاذ اتنا آسان نہیں جتنا تصور کیاجارہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر جب اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے تو اگلے قدم، کے بارے میں ان سے بارہا سوالات ہوئے۔ جواباً فقط یہ بتایا گیا کہ افواجِ پاکستان نے بطور ادارہ تحریک انصاف کے خلاف اپنا کیس عوام کے روبرو رکھ دیا ہے۔ اب ریاست، یعنی حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ادارے کی تسلی کے لیے کون سے اقدامات کیے جائیں۔ حتمی فیصلے کی ذمہ داری ریاست /حکومت کے سپرد کرتے ہوئے دوسے زیادہ بار یہ بھی دہرایا گیا کہ ریاست، معاملات کو Pragmaticانداز میں دیکھتی ہے۔ مذکورہ اصطلاح کا استعمال مجھے آئندہ چند ہی دنوں میں خیبرپختونخوا کو گورنر راج کے حوالے کردینے کا تصور کرنے سے روک رہا ہے۔
وسیع تر تناظر میں کوئی بھی وفاقی حکومت خواہ وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری کسی ایک صوبے کے عوام کو یہ پیغام دینے سے ہرممکن گریز کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ان کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایسے تاثر کے فروغ سے گریز کی خواہش تحریک انصاف کے بیرسٹرگوہر علی خان جیسے رہنمائوں کو ایک قدم آگے دو قدم پیچھے، والی حکمت عملی تیار کرنے کے بعد اس کے اطلاق کا موقع فراہم کرسکتی تھی۔
خیبرپختونخوا کے جواں سال وزیر اعلیٰ بھی تخت یا تختہ والی صورتحال کو ہوشیاری سے غچہ دیتے ہوئے ہم سب کو حیران کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حاوی پنجابی محاورے والے اونترے منڈے، مگر تحریک انصاف کے معتدل رہنمائوں کو لچک دکھانے کی سکت سے محروم کرچکے ہیں۔ بیانیہ سازی، پر بیرون ملک مقیم سوشل میڈیا کے جی داروں، کا کامل کنٹرول لہٰذا مجھے معاملات کو تخت یا تختہ والی صورتحال ہی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھنے کو مجبور کررہا ہے۔ کاش میں اس کے برعکس کی امید دلاسکتا۔

