ٹرمپ کی پراپرٹی ڈیلر والی حکمتِ عملی

تین روز قبل میں نے نیویارک ٹائمز میں مشہور صحافی تھامس فریڈمین کا ایک کالم پڑھا۔ اسے لکھتے ہوئے فریڈمین کے ذہن میں وہ ملاقاتیں تھیں جو حال ہی میں ٹرمپ کے خصوصی سفیر سٹیوویٹکوف اور اس کے داماد جیرڈ کشنر نے روسی صدر پوتن کے ساتھ کی ہیں۔ مذکورہ ملاقاتوں کا مقصد روس کو یوکرین کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرنے کے لئے رضا مند کرنا تھا۔ روس-یوکرین جنگ رکوانے کے لئے ٹرمپ اور اس کے معاونین نے جو فارمولہ تیار کیا ہے وہ ہر لحاظ سے پوتن کے اس دعوے کی تصدیق کے مترادف ہے کہ یوکرین "مہا روس" کا محض ایک حصہ ہے۔
اسے روس دشمنوں نے سازشوں کے ذریعے ایک خودمختار ملک کی صورت ابھرنے کے بعد "مادر وطن" سے جنگ لڑنے کو اُکسایا۔ برطانیہ کے علاوہ یورپ کے فرانس اور جرمنی جیسے اہم ترین ممالک بھی یہ فارمولہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ احساس شدید تر ہورہا ہے کہ "امریکہ کو دوبارہ عظیم" بنانے کی کاوشوں میں مصروف ٹرمپ یورپ اور اس کے دفاع کو اپنے ملک پر ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ یورپ کے جذبات کوسفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ روسی صدر کی دل جوئی کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
امریکہ اور یورپ کے مابین پڑھتی ہوئی بدگمانی مگر فریڈمین کے کالم کا اصل موضوع نہیں تھا۔ اس کو فکر یہ لاحق تھی کہ بین الاقوامی قضیوں کو حل کرنے کے لئے ٹرمپ جو فارمولے تیار کرتا ہے وہ بنیادی طورپر پراپرٹی کے دھندے سے وابستہ ذہنوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ سٹیو ویٹکوف جوانی کے دنوں سے ٹرمپ کے ساتھ پراپرٹی کے کاروبار میں شراکت دار رہا ہے۔ اس کے داماد جیرڈ کشنر کا باپ بھی ٹرمپ کے والد کا اسی د ھندے میں شریک کار رہاہے۔ پراپرٹی کے دھندے سے وابستہ لوگ نہایت اعتماد سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ زمین کا کوئی ٹکڑا یا بنی بنائی عمارت خریدنے کا ارادہ باندھ لیں تو بالآخر ایسی راہ نکل ہی آتی ہے جو زمین کا ٹکڑا یا بنی بنائی عمارت کے اصل مالک کو سودا طے کرنے کے لئے رضا مند کردے۔
فریڈمین مگر مصر رہا کہ دوممالک کے درمیان جھگڑے جائیداد پر قبضے جیسے قضیے نہیں ہوتے۔ ان کے پیچھے بسااوقات صدیوں تک پھیلی منافرتوں اور شکایات کا انبار ہوتا ہے۔ ان کو سمجھے بغیر ویٹکوف اور جیرڈ کشنر جیسے پراپرٹی ڈیلر جنگوں میں مصروف ملکوں میں صلح کی راہ تلاش نہیں کرسکتے۔ اسے ڈھونڈنے کے لئے آپ کو ہنری کسنجرجیسے تاریخ کے سنجیدہ طالب علم سفارت کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری بار وائٹ ہائوس پہنچنے کے فوری بعد مثال کے طورپر ٹرمپ نہایت سفاکی اور ڈھٹائی سے وحشیانہ فضائی بمباری اور خوراک سے محروم کرتی ناکہ بندی کا شکار ہوئے فلسطینیوں کو یہ مشورہ دینا شروع ہوگیا کہ اگر و ہ غزہ کی پٹی خالی کردیں تو ٹرمپ سمندر کے کنارے موجود زمین کے اس ٹکڑے کوایک شاندار کالونی میں بدل دے گا۔ وہاں دنیا بھر کے متمول افراد چھٹیاں گزارنے کے لئے گھر خریدنے کو بے قرار ہوں گے۔
یہ سوچتے ہوئے وہ اس حقیقت کا ادراک ہی نہ کرپایا کہ اپنی زمین سے محبت ہی وہ کلیدی جذبہ ہے جس نے فلسطینی مزاحمت کو قیامت خیز نقصانات کے باوجود زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے پہلے دن سے ہر فلسطینی یہ جان لیتا ہے کہ اس کے پرکھوں کی زمین کا بیشتر حصہ صہیونی توسیع پسندوں نے ہتھیارکھا ہے۔ قبضہ گیر ہوس کی مگر تسکین نہیں ہورہی۔ صہیونی توسیع پسندوں کا بس چلے تو وہ تمام فلسطینیوں کو دریا برد کرکے ان کی زمینوں پر قابض ہوجائیں۔
غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کے منصوبے کے پیچھے کارفرما حماقت دریافت کرنے میں ٹرمپ کو دیر لگی۔ اب وہ ایک اور منصوبہ تیارکئے بیٹھا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ چین اور روس اس پر تنقید کے باوجود مذکورہ منصوبے کو ویٹو کے ذریعے مسترد کرنے سے باز رہے۔ اس کے باوجود مذکورہ معاہدے پر عملدرآمد کے لئے پہلا قدم بھی اٹھایا نہیں جاسکا ہے۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کی فوج بین الاقوامی فوج کا حصہ بن کر حماس سے ہتھیار چھین کر اسے اسرائیل کے تھلے لگانے کو تیار نہیں۔
دریں اثناء ٹرمپ "امن کا داعی" ہونے کا دعوے دار ہوتے ہوئے جن جنگوں کو بند کروانے کا کریڈٹ لیتا ہے ان میں ایک جنگ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی ہورہی تھی۔ اس جنگ کے پیچھے بھی صدیوں کی منافرت اور دعوے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سیاست کے تقاضے بھی ہیں جو دونوں قوموں کی "اجتماعی یادداشت کو بھڑکاتے ہوئے جنگی جنون برقرار رکھتے ہیں۔ تھائی لینڈ کسی غیر ملک کی کبھی کالونی نہیں رہا۔ اس کے ہمسائے میں البتہ فرانس سامراجی نظام کے دوران کمبوڈیا اور ویت نام جیسے ملکوں پر قابض رہا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے مابین پہاڑی سرحد پر چار سے زیادہ تاریخی مندر ہیں۔ یہ مندر کبھی ہندودیوتا شیوا سے منسوب تھے۔ بعدازاں وہ بدھ بھکشووں کے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔ ان کی تعمیر نویں صدی میں شروع ہوئی تھی اور انہیں مکمل ہونے میں 3سو سال لگے۔ یہ مندر کمبوڈیا کی کھمریا خمر تہذیب کی نشانیاں ہیں۔ یونیسکو نے انہیں عالمی ورثہ ٹھہرارکھا ہے۔
تھائی لینڈ کا مگر دعویٰ ہے کہ فرانسیسی قبضے کے دوران تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جو حد بندی ہوئی وہ اسے ان مندروں سے محروم کرنے کی سازش تھی۔ اصولی اعتبارسے تھائی ثقافت مذکورہ مندروں سے وابستہ نہیں ہے۔ وہ کمبوڈیا سے مخصوص کھمر یا خمر ثقافت ہی سے وابستہ ہیں۔ تھائی لینڈ کی سیاست مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکی ہے۔ وہاں کی اشرافیہ بادشاہ اور فوج کی بالادستی تسلیم کرنا" حب الوطنی" کے لئے لازمی گردانتی ہے۔
تھائی لینڈ کی نوجوان نسل اور غریب طبقوں کی بے پناہ اکثریت مگر تھائی بادشاہ اور اس کی وفادار اشرافیہ اور فوج کو بے رحم استحصالی شمار کرتی ہے۔ اس کی بالادستی کو شنواترا خاندان نے چیلنج کیا۔ اس کا سربراہ ہمارے نواز شریف صاحب کی طرح وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوجانے کے بعد جلاوطنی کو مجبور ہوا۔ طویل جدوجہد کے بعد اس کے خاندان کی عورتوں نے "موروثی سیاست" کی بدولت وزارت عظمیٰ کے مناصب حاصل کئے۔ بے شمار سمجھوتوں کے باوجود مگر وہ تھائی لینڈ کی روایتی اور دیرینہ اشرافیہ کا دل جیتنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوپائی ہیں۔
رواں برس کے جون میں تھائی لینڈ کی فوج نے کمبوڈیا کی سرحد پر فوجیں جمع کرتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیارکیا تو شنواترا خاندان سے ابھری خاتون وزیر اعظم نے کمبوڈیا کے وزیر اعظم کو فون کرکے تسلی دینے کی کوشش کی۔ اس کی دلجوئی کے لئے ہوئی گفتگو کے دوران وہ کمبوڈیا کے وزیر اعظم کو "انکل(چچا)"کہہ کر پکارتی رہی۔ جو گفتگو ہوئی وہ مگر تھائی لینڈ کی خفیہ ایجنسیوں نے ریکارڈ کرنے کے بعد لیک کردی۔ اس لیک کی بدولت وزیر اعظم شنواترا"غدار وطن" تصور ہوئی اور عوامی جذبات بپھرگئے۔ بپھرے عوامی جذبات کا رخ کمبوڈیا کے خلاف موڑ کر تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر حملے کی تیاری شروع کردی۔ بھرپور تیاریوں کے دوران مگر ٹرمپ متحرک ہوئے اور دونوں ممالک میں جنگ بندی کروادی۔
تاریخی، تہذیبی اور سیاسی قضیوں کی گہرائیوں کو سمجھے بغیر مسلط کی جنگ بندی اب ایک بار پھر خطرے میں ہے۔ پیر 8دسمبر کے روز تھائی لینڈ کے F-16 طیاروں نے کمبوڈیا کی سرحد میں گھس کر کئی مقامات پر بمباری کی۔ اس سے زیادہ نقصان تو نہیں ہوا مگر کمبوڈیا کو جنگ کے لئے تیار رہنے کا پیغام مل گیا۔ جنوبی مشرقی ایشیاء کی تنظیم(آسیان) اب جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تھائی لینڈ کو روکنا مگر دشوار نظر آرہا ہے کیونکہ وہاں کی روایتی اشرافیہ بادشاہت کی بالادستی کو مضبوط تربنانے کیلئے کمبوڈیا کو فوجی اعتبار سے شکست دینے کو بے تاب ہے۔ قوم پرستی کے جذبات بھڑکانے کی وجہ سے ہوئی جنگوں سے گریز بہت مشکل ہے۔ ٹرمپ کو لہٰذا ایک بار پھرمتحرک ہونا پڑے گا۔ پائیدار امن کے حصول کے لئے مگر پراپرٹی ڈیلر والی حکمت عملی کام نہیں آئے گی۔

