Tuesday, 09 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Aap Banda Nawaz Kya Jaanein

Aap Banda Nawaz Kya Jaanein

آپ بندہ نواز کیا جانیں

گوشہ تنہائی میں بقول فیض احمد فیض غم جہاں کا حساب کرتے ہوئے سنجیدگی سے ایک کتاب لکھ ہی ڈالنا چاہتا ہوں۔ مزید بڑھنے سے قبل مگر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جو کتاب میرے ذہن میں ہے اس کا بطور صحافی "جو میں نے دیکھا" نوعیت کا موضوع نہیں ہوگا۔ عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کے باوجود ہاتھ اٹھاکر اعتراف کرتا ہوں کہ بڑے چائو سے اس شعبے کو اپناتے ہوئے میں نے جھک ماری تھی۔ اپنے خاندان کے بعد بیوی اور بچوں کو بھی کم وسائل اور اکثر درپیش آئی بے روزگاری سے تکلیف پہنچائی۔

خود پر "اصولی صحافت" کی وجہ سے گزرے صدموں کو یاد کرتا ہوں تو موجودہ دنوں کی سیاست پر چھائے کئی چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے دن یاد کرتے ہوئے یہ سوال مسلسل ذہن میں اٹھنا شروع ہوجاتا ہے کہ واقعی یہ وہی لوگ ہیں جو میری نگاہ میں کئی برسوں تک وطن عزیز میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی نظام کی "جدوجہد" میں مصروف رہے؟ یہ سوچتے ہوئے داغ پر جو صدمے گزرتے ہیں آپ بندہ نواز کیا جانیں۔

غیبت سے گریز کرتے ہوئے مگر اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ جو کتاب میں لکھنا چاہ رہا ہوں اس کا ممکنہ عنوان ہوگا: تاریخ" کے چند مغالطے جو آپ کی زندگی برباد کرسکتے ہیں "۔ جس مغالطے سے مذکورہ کتاب کا آغاز کرنا چاہتا ہوں وہ اس خوش گمانی کے بخیے ادھیڑنے کی کوشش ہوگی کہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ اس سے زیادہ بیہودہ مغالطہ میری دانست میں شاید ہی موجود ہو۔

اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان کو 1970ء تک براہ راست ووٹوں سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کی "عیاشی" ہی نصیب نہ ہوئی۔ ہمارے دیدہ وروں نے بلکہ "نظریہ ضرورت" کی بدولت طے یہ کیا کہ ہم بنیادی طورپر جاہل مگر جذباتی قوم ہیں۔ سیاستدانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دین کے نام پر برپا کی سیاست ملک کو "فساد فی الارض" کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ اسی باعث قیام پاکستان کے فقط 6 برس بعد میرے آبائی شہر لاہور میں امن وامان بحال کرنے کی خاطر اسے فوج کے حوالے کرنا پڑا تھا۔

1953ء گزرجانے کے تین برس بعد 1956ء کا آئین منظور ہوا۔ اسے منظور کروانے کے لئے مگر صوبائی خودمختاری کے وعدے پر بنے ملک کو "ون یونٹ" کے ذریعے "وحدت" فراہم کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج کا بنگلہ دیش ان دنوں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ اس کی آبادی ان دنوں کے برعکس آج کے پاکستان سے زیادہ تھی۔ بنگالیوں کی مفروضہ "ہندونوازی" سے تاہم گھبراکر ہم نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی آبادی برابر کردی۔ "وحدت اور برابری" کے باوجود مگر نئے انتخاب ممکن نہ ہوئے۔ جنرل ایوب نے صدر سکندر مرزا سے مارشل لاء لگوایا اور بعدازاں اس سے زبردستی استعفیٰ لینے کے بعد اقتدار پر کامل قبضہ کرلیا۔

موصوف ماہر سماجیات ہرگز نہیں تھے۔ یہ دریافت کرنے میں لیکن دیر نہ لگائی کہ پاکستانی قوم کا "مزاج" مضبوط مرکز اور شاہی اختیارات کا حامل صدر چاہتا ہے۔ قوم کو جمہوریت کی عادت ڈالنے کے لئے "بنیادی جمہوریت" کا نظام متعارف ہوا۔ میرے اور آپ جیسے کمی کمین اپنے محلوں سے 80ہزار بی ڈی ممبر چن سکتے تھے۔ یہ اراکین ہی بعدازاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ صدرِ پاکستان کوبھی منتخب کرتے۔ سیاست دانوں کی "جہالت اور موقع پرستی" نے اس فیصلے کو بھی تقویت پہنچائی کہ امریکہ کی طرح ہمارے ہاں جو کابینہ بنے گی اس کے اراکین کا انتخاب صدر پاکستان لوگوں کی ذہانت کابخوبی جائزہ لینے کے بعد کرے گا۔

فرض کیا منتخب اراکین اسمبلی میں سے بھی کوئی شخص خوش قسمتی سے اگر ذہین ثابت ہوگیا تو اپنی نشست سے مستعفی ہوکر اس کابینہ کا حصہ بنے گا۔ مختصر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے 1962ء میں متعارف کروائے آئین نے "ٹیکنو کریٹس" کی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ذہین وفطین وزراء کی ایک سخت گیر صدر کی نگرانی میں چلائی حکومت کو ہمارا ملک سنوارنے کے لئے پورے دس برس میسر ہوئے۔ ان برسوں کو سرکاری طورپر "عشرہ ترقی" پکارا گیا۔ اس کے انجام پر لیکن ایوب حکومت کے خلاف طلباء کی احتجاجی تحریک شروع ہوگئی۔

ایوب خان اس کی وجہ سے مارچ 1969ء میں استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ ان کے متعارف کردہ آئین کے مطابق صدر کی جانب سے استعفیٰ آجانے کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر کو قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنا چاہیے تھا۔ اتفاقاََ ان دنوں قومی اسمبلی کے سپیکر فضل القادر چودھری کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ شاید دستور پر عمل ہوجاتا تو مشرقی پاکستان کے احساس محرومی کی شدت میں کمی ہوسکتی تھی۔ ایوب خان نے مگر اپنے لگائے آرمی چیف یحییٰ خان کو مارشل لاء لگانے میں سہولت فراہم کی۔

جنرل یحییٰ خان نے صدر کا منصب سنبھالتے ہی "ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے" کا فیصلہ کیا۔ ون یونٹ توڑ کر صوبے بحال کردئیے گئے۔ قوم کو پہلی بار بالغ رائے دہی یا ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر عوامی نمائندے چننے کا اختیار بھی فراہم کردیا گیا۔ "ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے" کے باوجود دسمبر1970ء میں جو عام انتخاب ہوئے ان کے نتائج پر عمل نہ ہوسکا اور ہم مشرقی پاکستان سے جدا ہوگئے۔

آدھا ملک گنوانے اور بھارت کی فوجی جارحیت سے شکست خوردہ ہوئے پاکستان کے لئے ایک بار پھر یہ موقع تھا کہ "ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے"۔ بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت مگر ساڑھے نو مہینوں کے بعد ہی برطرف کردی گئی۔ "امن وامان کی بگڑتی صورتحال" کو اس کا سبب ٹھہراتے ہوئے بلوچستان میں گورنر راج لگادیا گیا۔ 14فروری1973ء کو منتخب حکومت کی جگہ بلوچستان کے گورنر کا نام نواب اکبر بگتی تھا۔ بلوچستان میں "امن وامان کی نازک ترین صورتحال" کے دوران ریاست پاکستان کے کام آنے والے اس شخص کا انجام حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اس کالم کا مقصد تاریخ نویسی نہیں اس امر پر اصرار ہے کہ قوموں کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ہرگز عادت نہیں اور پاکستان ہی وہ واحد ملک نہیں جو "مخصوص وجوہات" کی بدولت تاریخ سے سبق سیکھنے کے قابل نہیں۔

مشرقی پاکستان صوبائی خود مختاری اور پارلیمانی نظام کا تقاضہ کرتے ہوئے بھارت کی فوجی مدد کے ساتھ ہم سے الگ ہوا تھا۔ اپنے قیام کے مگر 3برس بعد "بانی بنگلہ دیش-شیخ مجیب نے 23 جنوری 1975ء کے دن اپنے ملک میں صدارتی نظام نافذ کردیا۔ اس نظام کے تحت حکومت کا حق فقط ایک پارٹی یعنی عوامی لیگ کو میسر تھا۔ نیا نظام متعارف کروانے کے محض سات ماہ بعد (15اگست 1975)"بنگلہ بندھو " اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارا گیا۔ تاریخ سے گویا اس نے بھی سبق نہیں سیکھا۔ وہ بھول گیا تھا تب بھی اس کی جاں نشین حسینہ واجد یک جماعتی نظام سے گریز یقینی بناسکتی تھی۔ پارلیمانی نظام برقرار رکھتے ہوئے بھی لیکن وہ بدترین آمر بن گئی اور بالآخر عوامی احتجاج سے گھبرا کر ان دنوں بھارت میں پناہ گزین ہے۔

جان کی امان پاتے ہوئے یہ بڑھک لگانے کی جسارت کررہا ہوں کہ حسینہ واجد سے نجات پالینے کے بعد وہاں کی نام نہاد Gen-Zکو سمجھ نہیں آرہی کہ اب آگے کیسے بڑھاجائے۔ میرے کئی بنگالی دوست جو عوامی لیگ کے تاعمر ناقد رہے ہیں اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ ان کا ملک سیاسی استحکام کی جانب بڑھتا نظر نہیں آرہا۔ مذہبی انتہا پسندی بھی وہاں بے قابو ہورہی ہے۔ اب تو یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ وہاں سے چند نوجوان اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان میں "اسلام کا نفاد یقینی بنانے کے لئے" ہمارے ہاں ان تنظیموں کے رضا کاروں کی صورت آرہے ہیں جنہیں ہم "خوارج" پکارتے ہیں۔

کالم میں مزید مغز کھپائی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ وگرنہ بنگلہ دیش کے علاوہ بھی بے شمار ممالک کا تفصیلی ذکر ہوسکتا ہے۔ ان کا احوال بیان کرنا مگر مقصود نہ تھا۔ یہ کالم لکھنے کی واحد وجہ آپ کوقائل کرنا ہے کہ "قومیں تاریخ سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں " والی سوچ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی عادی ہوتیں تو افغانستان دورِ حاضر کا مثالی ملک ہوسکتا تھا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Aap Banda Nawaz Kya Jaanein

By Nusrat Javed