Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Escape From Camp 14

Escape From Camp 14

سکیپ فرام کیمپ 14

کئی کتابیں انسان کو اندر سے ہلا دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ہے Escape From Camp 14۔ یہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقی داستان ہے جس کو واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر امریکی صحافی بلین ہارڈن نے شمالی کوریا کے بدنامِ زمانہ کیمپ 14 میں جنم لینے والے شِن ڈونگ ہیوک کی زندگی کو نہایت باریک بینی سے قلم بند کیا ہے۔ یہ صرف ایک انسان کی بقا کی کہانی نہیں بلکہ شمالی کوریا کے ظالمانہ نظام کی ہولناک تصویر ہے جہاں انسانیت دم توڑ دیتی ہے اور انسان محض زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں۔

لگ بھگ چھ ماہ قبل یہ کتاب کراچی کلفٹن میں لبرٹی بُک سٹور میں گھومتے یونہی اتفاقاً میری نظر میں آئی۔ اس کے ٹائٹل پر لکھا تھا New York Times Best Seller. میں نے لے لی کہ کبھی وقت ملا تو پڑھیں گے۔ مجھے بائیوگرافی اور آٹو بائیوگرافی میں دلچسپی رہی ہے۔ جب خریدی تھی اس وقت میں نہیں جانتا تھا میرے ہاتھ کیسی شاندار مگر اتنی ہی دلخراش کتاب آ گئی ہے جو مکمل جکڑ لیتی ہے اور اداس چھوڑ جاتی ہے۔

کیمپ 14 شمالی کوریا کے سب سے سخت اور خفیہ سیاسی جیلوں میں سے ایک ہے جہاں قیدیوں کو نہ صرف سزائے موت جیسی زندگی گزارنا پڑتی ہے بلکہ ان کے بچوں کو بھی نسل در نسل سزا دی جاتی ہے۔ شمالی کوریا کے ایک قانون کے مطابق غدار یا ریاست سے باغی شخص کی تین نسلیں سزا کی حقدار ہیں۔ وہاں نہ انسانی حقوق کا تصور ہے، نہ خاندان، نہ محبت، نہ امید۔ یہ داستان ہے کیمپ میں پیدا ہونے والے شِن کی جس کے دادا کو غدار قرار دیا گیا تھا۔ نتیجہ تین نسلوں کو بھگتنا تھا۔ شِن کیمپ 14 میں ہی پیدا ہوا اور اس نے دنیا کو صرف بھوک، سزا، سزا اور پھر سزا کی شکل میں ہی دیکھا۔ اس کا بچپن قید خانوں، جوتوں کے بغیر سرد زمین پر چلنے، غذائی قلت کے سبب کیڑوں اور چوہوں کو کھانے اور ہر لمحہ خوف میں پلتا بیتا۔

شِن کا اپنی ماں سے کوئی جذباتی رشتہ نہ تھا کیونکہ کیمپ میں لمبے عرصے سے قید کے سبب ڈپریشن کا شکار تھی اور اس کی مار پیٹ کرتی تھی۔ باپ کبھی کبھار ملتا۔ بھائی سے دور رکھا جاتا۔ کیمپ کا اصول تھا "سب سے پہلے زندہ رہو چاہے اس کے لیے کسی پر بھی الزام لگا دو"۔ اسی ذہنیت نے شِن کو وہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا جس نے پوری زندگی اسے ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رکھا۔ اس نے اپنے ہی بھائی اور ماں کے فرار کی کوشش کی مخبری کر دی۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرکے وہ کیمپ انتظامیہ کی نظروں میں لاڈلا بن جائے گا اور پھر اس کو مناسب غذا دی جانے لگے گی۔ لیکن اس مخبری کے نتیجے میں اس کی ماں اور بھائی کو شِن کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد شِن کو محض 13 سال کی عمر میں چھ ماہ تک مسلسل خوفناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ٹانگیں جلا دی گئیں، جسم کو خار دار تاروں سے کسا گیا اور وہ موت کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اسی دوران ایک بزرگ قیدی نے اسے سہارا دیا، کھانا کھلایا اور آہستہ آہستہ اس کے اندر انسانیت کی پہلی کرن جگائی۔ اس بزرگ قیدی کے ساتھ شِن کا رشتہ بڑھ کر باپ بیٹے میں بدلنے لگا۔ کیمپ میں ایک دوسرے قیدی سے پہلی بار اسے پتہ چلا کہ اس کیمپ کے باہر بھی دنیا ہے جہاں پکا ہوا گوشت ملتا ہے اور لوگ خوف کے بغیر آزاد رہتے ہیں۔ یہ باتیں اس کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھیں۔ خوراک کی خواہش نے آزادی کی خواہش کو جنم دیا۔ خوراک اس کی پہلی اور آخری محرک تھی۔

شِن نے اپنے ساتھی بزرگ قیدی کے ساتھ فرار کا منصوبہ بنایا۔ سالوں کی منصوبہ بندی کے بعد ایک رات اپنے پلان کو عملی جامہ پہناتے جب وہ کیمپ کے اندر اپنے بنک بیڈ کوارٹر سے بھاگ کر بجلی والی باڑ کے قریب پہنچے تو وہ ساتھی بزرگ قیدی کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اس کی جلی ہوئی لاش شِن کے لیے پل کا کام بنی اور وہ اس کے اوپر چڑھ کر باڑ پار کر گیا۔ اس دوران شِن خود بھی آدھا جل چکا تھا۔ وہ پہلا انسان تھا جو شمالی کوریا کے کیمپ 14 سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔

فرار ہو کر وہ شمالی کوریا سے چین کی سرحد عبور کرتا چین پہنچا۔ چین میں اسے کوئی پناہ نہ مل پائی۔ چینی کسان پناہ گزینوں کو غلامی پر مجبور کرتے تھے۔ اس نے چین میں ایک کسان کے ہاں محض دو وقت کے کھانے کے عوض ملازمت کی۔ پھر ایک دن وہاں سے بھاگا اور جنوبی کوریا پہنچا اور پھر بلآخر امریکا پہنچا۔ امریکا پہنچنے کا سبب شِن کی کہانی بنی جس کو سن کر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اسے امریکا منتقل کر دیا۔

آزادی ملنے کے بعد بھی شِن کی اصل لڑائی شروع ہوئی۔ شدید Post-Traumatic Stress، جھوٹ بولنے کی عادت، جذباتی کمزوری، رشتے برقرار نہ رکھ پانا اور کاروباری کلچر کو نہ سمجھ پانے کے سبب وہ کسی کام کے قابل نہ رہا۔ زندگی آزادی پا کر بھی مشکل بنی رہی کیونکہ کیمپ نے اسے انسان بننے کی وہ بنیادی تربیت ہی نہیں دی جو باہر کی دنیا میں ضروری تھی۔ آزادی اس کے لیے نعمت سے زیادہ بوجھ بننے لگی تھی۔

یہ کتاب صرف ایک شخص کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ شمالی کوریا کے نظام کی مکمل تصویر ہے۔ یہ ان دو لاکھ قیدیوں کی بھی کہانی ہے جو آج بھی شمالی کوریا کے کیمپوں میں بند ہیں۔ یہ بتاتی ہے کہ ظلم کس طرح شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ کیمپوں کا نظام نسل در نسل سزا اور خوف کا ہتھیار ہے اور یہ بھی کہ آزادی پانے والے بھی ذہنی طور پر اس قید سے نکلنے میں سالوں لگاتے ہیں۔ ایک بہترین سبق آموز کتاب جو انسان کی بقا، ظلم کی انتہا اور انسانیت کی شکست و ریخت کی کہانی ہے۔ یہ دنیا کو شمالی کوریا کی اصل حقیقت دکھاتی ہے۔

اب شِن جینیوا میں یو این ہیومن واچ کے لیے کام کر رہا ہے۔ شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ ہے۔

Check Also

Aik Anokha Hakeem

By Mumtaz Hussain