Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Patang Bazi Ki Aar Mein Saqafat Pasandi Ka Drama

Patang Bazi Ki Aar Mein Saqafat Pasandi Ka Drama

پتنگ بازی کی آڑ میں ثقافت پسندی کا ڈرامہ

ذاتی طور پر راقم نے کبھی بھی پتنگ بازی کو پسند نہیں کیا۔ بسنت کے دن مجھے سخت ناگوار گزرتے تھے کیونکہ بجلی ہر دو منٹ بعد ٹرپنگ کرتی تھی، الیکٹرانک اشیاء جل جاتیں، پانی بند ہو جاتا کیونکہ تب سرکاری ٹینکی سے پانی گھروں تک پہنچتا تھا اور سب سے بڑھ کر گردن پر ڈور پھرنے سے بچوں کی اموات کی خبریں آتی تھیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ کے میچز بھی زیادہ تر بسنت یعنی بہار کے موسم میں شروع ہوتے تھے جو بجلی کی آنکھ مچولی کے باعث دیکھے نہیں جا سکتے تھے۔ معلوم نہیں پتنگ بازی میں کیا مزہ ہے، شاید اسی کو معلوم ہے جو خود کرتا ہے!

آج حکومت پنجاب نے ضابطہ اخلاق کے تحت پتنگ بازی کی اجازت دی ہے اور اسے پنجاب کا ثقافتی جشن قرار دیا جا رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ اگر واقعی یہ فیصلہ ثقافت پسندی کی بنیاد پر ہوتا تو پنجاب اسمبلی میں پنجابی زبان اور روایتی لباس کو فروغ دیا جاتا اور یہاں تک کہ اسے لازمی قرار دیا جاتا۔ پرائمری تک پنجابی زبان میں بچوں کو تعلیم دینے کو قانون بنایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی میں نہ دھوتی کرتہ پہنا جا سکتا ہے، نہ پگ اور کھسہ۔ نہ بچے سکول میں پنجابی میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ ستھرا پنجاب یا دھی رانی جیسے پروگراموں کے ناموں میں پنجابی زبان کا استعمال محض پوائنٹ سکورنگ ہے۔ اس پس منظر میں پتنگ بازی کا ڈرامہ ثقافت کے طور پر پیش کرنا محض ایک ناٹک ہے جو عوامی اور تہذیبی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس وقت پتنگ بازی کی اجازت کے فیصلے پر مختلف نقطہء نظر موجود ہیں۔ ایک گروہ اس کی شدید مخالفت کرتا ہے اور اسے خونی کھیل قرار دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی جان کی حفاظت سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے اور بچے یا نوجوان حادثات کا شکار ہوں تو کوئی تہوار قابل قبول نہیں رہتا۔ وہ درست سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قانون کے نفاذ کی کمی ہے اور خطرناک دھات یا گلاس والی ڈور کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کے زخمی ہونے یا بچوں کی اموات کے بارے میں خبریں انہیں درست ثابت کرتی ہیں۔ اس گروہ کے نزدیک زندگی اور سلامتی کے سامنے کسی بھی کھیل یا جشن کا جواز کمزور ہے۔

دوسرے گروہ کا ماننا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف خوف میں جینا نہیں۔ اگر کسی سرگرمی کے خطرات کو منظم انداز میں کم کیا جا سکے تو اسے کنٹرولڈ آزادی دی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں خطرناک کھیل اور تہوار قواعد و ضوابط کے ساتھ ہو رہے ہیں اور بغیر کسی بڑے نقصان کے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت محفوظ ڈور کی فراہمی یقینی بنائے، نگران ٹیمیں موجود ہوں، فسٹ ایڈ اور رسکیو انتظامات قائم ہوں اور صرف مخصوص کھلے مقامات پر پتنگ بازی کی اجازت ہو تو پتنگ بازی کے رنگ بھی برقرار رہیں گے اور انسانی جان بھی محفوظ رہے گی۔

تیسرا طبقہ ان دونوں کے درمیان توازن کی بات کرتا ہے۔ اس کے مطابق نہ مکمل آزادی ٹھیک ہے اور نہ مکمل پابندی۔ درست راستہ وہ ہے جس میں آزادی کو ذمہ داری کے تابع کیا جائے۔ مثلاً پتنگ بازی کھلے میدان، بڑے پارک یا مختص کردہ سیکٹرز میں ہو۔ ڈور صرف نرم اور روئی کی ہو، ڈور رجسٹریشن کے تحت فروخت ہو، غیر قانونی ڈور بیچنے والوں پر سخت سزائیں ہوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے صرف تماشائی ہوں یا محتاط معاون کے طور پر شامل ہوں۔ رسکیو اور فسٹ ایڈ کی سہولت موجود ہو اور رات کو پتنگ بازی پر پابندی ہو۔ میڈیا اور سماجی آگاہی کے ذریعے عوام کو بتایا جائے کہ یہ کھیل جان کا خطرہ نہیں بلکہ تہذیب اور خوشی کا ذریعہ ہے۔ اس ماڈل میں تہوار کی ثقافت بھی زندہ رہتی ہے اور انسانی جان کی حفاظت بھی یقینی ہوتی ہے۔

یہ تو تھے پتنگ بازی کی حمایت اور مخالفت کے نظریات۔ قارئین اب راقم السطور کا نظریہ بھی جان لیں۔ ناچیز کی رائے میں حکومت پنجاب کا یہ فیصلہ غیر ضروری اور خطرناک ہے اور نیک نیتی سے کہیں زیادہ مفادی ہے۔ ماضی کے حادثات، انسانی جان پر مسلسل خطرہ اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر پتنگ بازی میرے لیے ہمیشہ ناپسندیدہ رہی ہے۔ نیز یہ پہلو بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ بسنت بنیادی طور پر ایک موسمی تہوار ہے یعنی 'آئی بسنت، پالا اڈنت '۔ سردیوں کے بعد بہار کی آمد اور قدرتی ماحول کی تبدیلی کا جشن ہے۔ لیکن آج موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سردی اور پالا تقریباً ختم ہو چکا ہے اور گرمی کا موسم تقریباً پورے سال برقرار رہتا ہے۔ ایسے میں پتنگ بازی کو بسنت کا لازمی حصہ سمجھنا منطقی نہیں ٹھہرتا۔

قصہ کوتاہ، چاہے حکومت ضابطے بنائے یا محفوظ ڈور فراہم کرے، حقیقت یہ ہے کہ یہ کھیل جان کے لیے خطرہ پیدا کرتا ہے اور ثقافت پسندی کی آڑ میں اس کی اجازت دینا محض ایک ڈرامہ ہے۔ اس لیے بندہ کے نزدیک پتنگ بازی پر پابندی برقرار رکھنا ہی زیادہ مناسب، محفوظ اور فکری طور پر موزوں فیصلہ ہے۔ جو قارئین راقم کی آراء سے متفق نہ ہوں تو بھی نو پرابلم کیونکہ بقول شاعر:

فلک نے اپنا مقدر نہ تھا اتارا ایک
اسی لیے نہ ہوا راستہ ہمارا ایک

Check Also

Foji Incubator Aur Zulfiqar Ali Bhutto

By Muhammad Aamir Hussaini