Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Nawaz Sharif Ki Kahani

Nawaz Sharif Ki Kahani

نواز شریف کی کہانی

نواز شریف صاحب کی کہانی طویل کہانی ہے۔ نواز شریف کے کیریئر میں نہایت دلچسپ موڑ آئے۔ پاکستان کے واحد سیاست دان جو تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ بھی رہے۔ کوئی سیاست دان ان سے زیادہ خوش قسمت نہیں رہا اور شاید ہی کوئی پاکستانی سیاست دان ان سے زیادہ بدقسمت ہو۔ انہیں تین بار وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔ دو بار عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ تقریباً ایک دہائی جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا اور مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ ایک بار عمر قید بھی۔

نوجوانی میں جب ان کے پاس کمائے بغیر خرچ کرنے کو والد صاحب کا بہت سا پیسہ تھا تب نواز شریف نے ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی جماعت تحریکِ استقلال سے سیاست میں قدم رکھا۔ سیاست میں ان کے عروج کے پیچھے تین فوجی جرنیل تھے۔ جنرل غلام جیلانی جو پنجاب کے گورنر اور سابق آئی ایس آئی سربراہ تھے انہوں نے سنہ 1981 میں انہیں صوبائی وزیر خزانہ بنا کر اور سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر سیاست کے مرکزی دھارے میں اہم شخصیت بنا دیا۔ دوسرے، جنرل ضیاء الحق جنہوں نے پنجاب کو اپنی اور نواز شریف کی مشترکہ اسلامائزیشن کی سوچ کا محافظ بنانے کے لیے صوبے کی معیشت میں کثیر سرمایہ جھونکا اور تیسرے جنرل حمید گل نے بطور آئی ایس آئی سربراہ سنہ 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی تشکیل میں مدد دے کر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نواز شریف کی پشت پناہی کی۔ جب پیپلز پارٹی پنجاب سے قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو حمید گل نے اس امر کو یقینی بنایا کہ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں تاکہ مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو قابو میں رکھا جا سکے۔

سنہ 1990 میں وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے ضیاء کے مشن کی تکمیل کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے اپنے عزائم بھی تھے۔ نواز شریف کو صدر کی فائلوں پر بیٹھنے کی عادت ناگوار گزرتی تھی۔ وہ آئین کے آرٹیکل 58(2)(b) کے خاتمے کے خواہاں تھے جو صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا تھا۔ نوازشریف مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری میں بھی اپنا کردار چاہتے تھے مگر صدر نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف مقرر کرکے انہیں سرپرائز دے دیا۔ نواز شریف نے قوم سے خطاب میں صدر پر سازش کا الزام لگایا۔ اگلے ہی دن صدر نے اسمبلی تحلیل کرکے انہیں برطرف کر دیا۔ سپریم کورٹ نے صدر کے حکم کو کالعدم قرار دیا۔ نواز شریف اقتدار میں واپس آئے مگر بالآخر آرمی چیف کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم کی لڑائی میں مداخلت کی اور صدر اور وزیر اعظم دونوں کو رخصت کر دیا۔ جسے کاکڑ فارمولہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

نواز شریف نے سنہ 1997 میں بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ کر سب سے پہلے آرٹیکل 58(2)(b) ختم کرایا اور صدر فاروق لغاری (جو بے نظیر کے نامزد کردہ تھے مگر بعد میں مخالف بن گئے) کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی نہ کی۔ پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو معزول کرنے کے کو ان کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا۔ بعد ازاں صدر لغاری مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی قومی سلامتی کونسل بنانے کی تجویز پر سخت ردِعمل دیا جس سے فوج اور ان کے بیچ دوریاں پیدا ہوئیں اور پھر جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی کوشش نے ان کے زوال کی بنیاد رکھ دی۔ وہ نہ صرف اقتدار سے گئے بلکہ طیارہ اغوا کے مقدمے میں عمر قید کی سزا ملی اور سعودی بادشاہ کی میزبانی میں جلاوطنی ان کی نجات بنی۔ سنہ 2008 میں بینظیر کی ملک واپسی کے بعد فوج نے ان کی واپسی پر بھی اعتراض نہ کیا۔ سنہ 2013 کے انتخابات جیتنے کی اجازت ملی مگر ٹائٹ رسی سے لٹکے رہے۔ جب جب وہ "حقیقی" وزیراعظم بننے کی کوشش کرتے رہے ان کے پرانے سرپرستوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔

نواز شریف کے جانے میں تین عوامل فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ اول، مکمل اختیارات کے حامل "حقیقی" وزیراعظم بننے کی خواہش۔ دوم، ان کی شخصیت میں موجود عجلت پسندی، جو انہیں خطرات تولے بغیر فیصلے کرنے پر اکساتی رہی۔ سوم، یہ حقیقت نہ سمجھ پانا کہ کوئی شخص بیک وقت عوام کا منتخب وزیراعظم اور دولت سمیٹنے والا طاقتور سرمایہ دار نہیں بن سکتا۔ ابتدائی زندگی میں نواز شریف نے وہی دولت خرچ کی جو ان کے والد میاں شریف نے کمائی تھی۔ اقتدار ملنے کے بعد دولت بنانے میں انہیں کوئی قباحت نہ لگی۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیاست دان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی اور وہ عوام سے کچھ چھپا نہیں سکتا۔ لندن فلیٹس کی داستانیں گو کہ سنہ 93 سے ہی گردش میں تھیں لیکن پانامہ لیکس نے مہر ثبت کر دی۔

اپنی جلاوطنی کے دوران انہوں نے کچھ سیکھا تو یہ سیکھا کہ بینظیر یا اپوزیشن سے اتحاد وقت کی ضرورت ہے تاکہ فوجی حکمران مشرف کو ہٹایا جائے اور مستقبل میں کسی جرنیل کی آمد کا راستہ مستقل بنیادوں پر بند کیا جائے۔ میثاق جمہوریت ہوگیا۔ مگر ہائے میاں صاحب کی عجلت پسندی کہ انہوں نے ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کے ذریعے منتخب حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرکے میثاقِ جمہوریت کے ایک بنیادی اصول سے انحراف کیا۔ بعد ازاں وہ پیپلز پارٹی حکومت کی اتھارٹی کمزور کرنے کے لیے عدلیہ اور ججوں کی خوشامد بھی کرتے رہے۔

اپنی تیسری مدت میں نواز شریف نے کچھ کچھ سیاسی بصیرت دکھائی۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کو پہلی بار حکومت بنانے کا موقع دیا اور خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ مگر اپنی جماعت کو منظم نہ کرنے اور پارلیمان کو مضبوط نہ کرنے کی کوتاہیاں انہیں کمزور کر گئیں اور پھر آئی ایس آئی کو صرف و صرف وزیراعظم کو رپورٹ کرنے کے فیصلے پر اسٹیبلشمنٹ نے سامنے آن کر ٹویٹ کر دی "ریجکٹڈ"۔ اس کے بعد پانامہ لیکس ٹپک پڑیں۔

نوازشریف صاحب نے چھانگا مانگا کی سیاست بھی کی، بن لادن سے پیسے لے کر بینظیر کی حکومت گرانے میں بھی پیش پیش رہے۔ ججوں اور جرنیلوں سے بھی سودے بازی کرتے رہے اور ان سے الجھتے بھی رہے۔ جنرل آصف نواز کو بی ایم ڈبلیو کا تحفہ دے کر رام کرنے کی کوشش بھی کر چکے، سجاد علی شاہ کو لاٹھی سے ہٹانے کی کوشش بھی کی، افتخار چوہدری کو لانگ مارچ سے بحال بھی کرایا، جسٹس قیوم ملک کو بینظیر کے خلاف فیصلے دینے کے لیے بھائی شہباز سے کالیں بھی کرائیں۔ لندن فلیٹس بھی بنائے۔ کاروبار بھی پھیلایا۔ آج میاں صاحب کے بھائی وزیراعظم ہیں۔ ان کی پارٹی اقتدار میں ہے۔ نظام بھی سرنڈر ہے اور نوازشریف بھی سرنڈر ہیں۔ میاں صاحب کی اننگز دلچسپ رہی۔ وہ ہمیشہ کریز سے نکل کر کھیلنے کی لت میں وکٹ کیپر کے ہاتھوں سٹیمپ آؤٹ ہوتے رہے۔ اب وہ کریز چھوڑنا ہی نہیں چاہتے۔

آپ نوازشریف کو چاہے کچھ بھی گردانیں لیکن ایک بات ماننا ہی ہوگی۔ پاکستان کی سیاست میں میاں صاحب وہ کردار ہیں جنہوں نے اس سسٹم سے ہر بار دھکا کھانے کے بعد اپنی واپسی کی راہ بھی ایسے ہنر سے تراشی کہ ان کے سب سے بڑے مخالف عمران خان صاحب بھی دیکھتے ہی رہ گئے۔ کیسے وہ جھوٹی سچی رپورٹس پر خان صاحب کے ہوتے جیل سے نکل کر لندن چلے گئے۔ کیسے وہ واپس آئے اور کیسے سارے مقدمات ہوا میں اڑ گئے۔ میاں صاحب نے یہ کھیل پہلی بار نہیں کھیلا۔ چوتھی بار نظام میں واپسی کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں "ایک زرداری سب پہ بھاری" اور کچھ کا خیال ہے مولانا فضل الرحمٰن سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں جبکہ میں سمجھتا ہوں پاکستانی سیاست کے میدان میں نواز شریف سے کائیاں شخص تاحال کوئی نہیں نظر آیا۔ آپ اسے سیاست کہیں، منافقت کہیں، سودے بازی کہیں وہ آپ کی مرضی۔ میاں صاحب صورت سے بھولے ہیں لیکن ان کو بھولا سمجھنے والے واقعی گھاس چرتے ہیں۔

جو لوگ نواز شریف صاحب کو ملتے ہیں یا کبھی مل چکے ہیں وہ میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپ کی ان سے اگر ملاقات ہو جائے تو وہ آپ سے پوچھیں گے "آپ بتائیے کیا ہو رہا ہے۔ کیا چل رہا ہے"۔ آپ پہلے حیران ہوں گے کہ میاں صاحب مجھ سے جاننا چاہ رہے ہیں؟ واقعی میاں صاحب بھولے بن کر سامنے بیٹھے آپ کو تکتے رہیں گے اور سوال پوچھیں گے اور پھر آپ کی جو بھی رائے ہو اس پر یوں حیرانی و تعجب کا اظہار کریں گے جیسے ان کو کچھ معلوم نہ ہو۔ پھر وہ پوچھیں گے آپ بتائیں کیا ہونا چاہئیے؟ اگر آپ ان سے کوئی سیاسی سوال کر لیں تو وہ گھما کر آپ کو کہیں گے "باخبر تو آپ ہیں، آپ صحافی/ دانشور/ادیب/سول سوسائٹی ایکٹویسٹ/ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ہمیں تو آپ سے سننا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے"۔ عین ممکن ہے پہلی بار ملنے پر آپ باہر نکل کر سوچیں کہ میاں صاحب تو بالکل ہی معصوم، لاعلم، گولو مولو، بھولے بھالے ہیں۔ اسی لیے بیچارے ہر بار رگڑے جاتے ہیں اور دوسرا خیال آپ کو یہ آئے گا کہ آپ تو میاں صاحب سے زیادہ ذہین اور باعلم ہیں۔ آپ ان کو مشورے دے کر آئے ہیں اور انہوں نے آپ کی باتیں بڑی توجہ و حیرانی سے سُنی ہیں۔ وہ تو آپ کی باتوں پر بہت غور کر رہے تھے۔ لیکن آپ خاطر جمع رکھیں۔ میاں صاحب نے آپ کی باتیں سن کر یا تو آپ پر tick لگایا ہے یا کراس لگا دیا ہے۔

میں نے نیشنل جیوگرافک پر دیکھا۔ ایمازون کے جنگل میں ایک ایسی شکاری چھپکلی ہے جو خود کو چارہ بنا کر مینڈک کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔ مینڈک ایک ہی جھٹکے میں لمبی زبان نکال کر اسے نگل جاتا ہے۔ پھر وہ مینڈک کے پیٹ میں جاتے ہی زہر چھوڑتی ہے۔ مینڈک چند منٹوں میں مر جاتا ہے۔ چھپکلی اس کے منہ سے باہر نکلتی ہے اور پھر مینڈک کو کھانے لگتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے میاں صاحب کی کہانی یاد آ گئی۔

نواز شریف صاحب کا مقتدرہ سے Love & Hate کا پرانا تعلق بھی ہے۔ اس سلسلہ وار سیریز میں ایکشن، رومانس، ڈرامہ اور تھرلر کے سارے لوازمات ہیں۔ نواز شریف کی داستان ہم سب کی داستان بھی ہے کیونکہ ہم سب کے اندر چھوٹا نواز شریف بھی بستا ہے۔ تھوڑا سا کھاؤ، کچھ شرمیلا، ذرا سا شرارتی، بوقت ضرورت و حسبِ ضرورت ہاتھ کی صفائی، موقعہ کی تلاش اور مخالف (چاہے اسٹیبلشمنٹ ہو یا سیاسی کردار) سے سکور سیٹل کرنے کی لگن۔ چونکہ میاں صاحب اور کمپنی کا پرانا ناطہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ نہ وہ میاں صاحب کے بغیر رہ سکتے نہ میاں صاحب کا اب ان کے بنا دل لگتا ہے۔ اس لیے نئی فلم پرانے کرداروں کے ساتھ پھر سے نمائش کے لیے پیش ہے۔

Check Also

Nawaz Sharif Ki Kahani

By Syed Mehdi Bukhari