Grooming Royals, Englistan Ke Shahi Bachon Ki Tarbiyat
گروومنگ رائلز، انگلستان کے شاہی بچوں کی تربیت

بادشاہت کی چمک دمک، شاہی محلات کی روشنی، تخت و تاج کی شان۔ یہ سب دور سے دیکھنے میں بے حد دلکش لگتا ہے۔ مگر ان دیواروں کے پیچھے زندگی اکثر عام گھروں سے زیادہ نظم، ذمہ داری اور تربیت کا تقاضا کرتی ہے۔ برطانوی شاہی خاندان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ اپنے بیٹے شہزادہ جارج کی پرورش ایسے کر رہے ہیں جیسے ایک عام والدین اپنے بچے کی کرتے ہیں، بلکہ کسی حد تک اس سے بھی زیادہ توجہ اور احتیاط کے ساتھ۔ ایک شاہی ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ وہ جارج کو محفلوں میں مناسب طریقے سے پیش آنے کی تربیت ضرور دیتے ہیں، لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے رسمی اور طویل پروگرام ایک چھوٹے بچے کے لیے تھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ یہ بات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ دل کے کسی گوشے میں وہ بھی ہر بچے کے والدین کی طرح نرم دل اور بچے کی عمر کے تقاضوں کو سمجھنے والے ہیں۔
مزید سادگی کا راز اس وقت کھلتا ہے جب ایک اور اندرونی شاہی ذرائع نے بتایا: "لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گھر کے اندر معاملات کتنے عام اور سادہ ہیں۔ بچے کھانے کی میز لگانے میں مدد کرتے ہیں، کھانا کھانے کے بعد اپنی پلیٹیں خود اٹھاتے ہیں اور صفائی ستھرائی میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ گھر میں کسی قسم کی خصوصی رعایت نہیں ہوتی"۔ یہ بات کسی عام خاندان کے بارے میں ہو تو قابلِ فہم ہے، مگر جب یہ وہ بچے ہوں جن کی ہر حرکت کیمرے میں محفوظ ہو جاتی ہے، جو مستقبل میں بادشاہ بننے والے ہوں، تو معاملہ نہایت غیر معمولی بن جاتا ہے۔ اس سادگی اور اصول پسندی کے اندر ایک تربیت یافتہ ذہن کی جھلک ملتی ہے جسے شاہی ماہر ٹام کوئن نے اپنی کتاب Gilded Youth: An Intimate History of Growing Up in the Royal Family میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
درحقیقت شاہی خاندان کی تربیت کا یہ انداز ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روشناس کراتا ہے جسے ہم میں سے اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عظمت، اقتدار، شہرت اور بڑے عہدے انسان کو عام انسان ہونے سے محروم نہیں کر دیتے۔ شاہی خاندان شاید اس اصول کو ہم سے کہیں بہتر سمجھتا ہے کہ بچے چاہے کسی بھی خاندان میں پیدا ہوں، تربیت کا پہلا اور اہم سبق ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ یہی ذمہ داری انہیں کھانوں کی میز سے لیکر زندگی کے بڑے فیصلوں تک، ایک متوازن اور باوقار انسان بناتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہزادہ ولیم اور کیٹ اپنے بچوں کو اسی ماحول میں پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ڈسپلن شاہی پروٹوکول سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کام کرنا، صاف کرنا اور مدد کرنا بادشاہی خون کے باوجود ضروری سمجھا جاتا ہے۔
مگر یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے: آخر اس اعلیٰ شاہی خاندان کو گھر کی معمولی باتوں پر اتنی توجہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب تصویر کے دوسرے رخ میں چھپا ہے۔ دنیا آپ پر جتنی نگاہیں رکھتی ہے، آپ کے ہر قدم، ہر لفظ اور ہر عمل کو جتنا زیادہ جانچا جاتا ہے، آپ کے لیے اپنے اصل انسان ہونے کی پہچان برقرار رکھنا اتنا ہی ضروری ہو جاتا ہے۔ شہزادہ جارج جیسے بچوں کو مستقبل میں بادشاہ بننا ہے، اقتدار سنبھالنا ہے، قوم کی رہنمائی کرنی ہے۔ اگر وہ بچپن سے کام کاج کی اہمیت نہ سمجھیں، اگر ان کے اندر نرم دلی اور عاجزی پیدا نہ ہو، تو دل کے خالی پن کو تاج کی چمک کبھی پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کیٹ اور ولیم اپنے بچوں کو ان بنیادوں پر پروان چڑھانا چاہتے ہیں جن پر مضبوط کردار تعمیر ہو سکتا ہے۔ اس تربیت میں نہ شاہی حیثیت آڑے آتی ہے اور نہ پروٹوکول۔ صرف اصول اور انسانیت کی قدر باقی رہ جاتی ہے۔
یہ تحریر پڑھ کر ہم سب کے لیے بھی ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے۔ ہم اپنے گھروں میں بچوں کو بہت کچھ دینا چاہتے ہیں، بہترین سکول، اچھا کھانا، آرام دہ ماحول، مگر اکثر ہم ان کے ہاتھ پکڑ کر ذمہ داریاں نہیں سکھاتے۔ ہم انہیں کام نہ کرنے دیں، انہیں تکلیف نہ پہنچے، وہ اپنے جوتے نہ اٹھائیں، اپنی پلیٹ نہ دھوئیں۔ ہم اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ بچہ اگر ہر سہولت کے ساتھ بڑا ہوگا تو بہتر مستقبل بنائے گا۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ زندگی کی اصل طاقت آرام سے نہیں، ذمہ داری سے آتی ہے۔ دنیا کی چند بڑی بادشاہتوں کے وارث اگر پلیٹیں اٹھاتے ہیں، میز لگاتے ہیں اور اپنے کمروں کی صفائی کرتے ہیں تو ہمارے بچوں کو بھی یہ سیکھنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔
شاہی خاندان کی اس تربیت کا ایک پہلو ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وقار، تمیز، تحمل اور کردار کی مضبوطی یہ چیزیں وراثت میں نہیں ملتیں بلکہ یہ روزانہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے، والدین کے رویوں سے، گھر کے ماحول سے اور مسلسل مشق سے پروان چڑھتی ہیں۔ کیٹ اور ولیم اپنے بچوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ بڑائی کا اصل معیار تخت اور لباس نہیں بلکہ کردار کی صفائی اور ذمہ داری کی ادائیگی ہے۔ یہی سبق ہمارے گھروں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔ ہم اگر اپنی نسلوں کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو انہیں سکھانا ہوگا کہ زندگی کی اہمیت مزے میں نہیں بلکہ محنت میں ہے۔ عزت کردار سے آتی ہے، رتبہ انسانیت سے اور وقار عاجزی سے۔
شاہی خاندان کے بچوں کی یہ تربیت اس بات کا خوبصورت ثبوت ہے کہ گھر کی بنیاد اگر سادگی، نظم و ضبط اور محبت پر رکھی جائے تو زندگی کے بڑے سے بڑے مرتبے میں بھی انسانیت زندہ رہتی ہے۔ شاید یہی وہ فلسفہ ہے جو ہر والدین کو سمجھنا چاہیے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے بادشاہی نہیں چاہتے، مگر ان کا مستقبل ضرور چاہتے ہیں اور مستقبل صرف ایک ہی طریقے سے روشن ہوتا ہے۔ مضبوط تربیت، واضح اصول اور کردار کی طاقت سے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو ہر ماں باپ اپنے گھر میں پیدا کر سکتا ہے، چاہے وہ محل میں رہتے ہوں یا ایک چھوٹے سے گھر میں۔
یہ شاہی مثال ہمیں ایک بڑی سچائی دکھاتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں شان و شوکت نہیں، اصول اور ذمہ داری سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ تحفہ ہے جو آنے والی نسلوں کو بادشاہ نہیں تو بہترین انسان ضرور بنا سکتا ہے۔

