Siasi Surat e Haal Aur Tehreek e Jihad
سیاسی صورتِ حال اور تحریکِ جہاد
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اور تحریکِ جہاد کے پیدائشی محرکات اور اس وقت کی سیاسی صورتحال میں غیر معمولی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ تحریکِ جہاد اُس تاریخی گھڑی میں سامنے آئی جب برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت عملاً ختم ہو چکی تھی۔ مغلیہ تخت محض علامتی حیثیت رکھتا تھا اور زمینی اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں جا چکا تھا۔ اس وقت استعماری طاقت کی توسیع کے راستے میں واحد رکاوٹ پنجاب اور کشمیر پر مشتمل سکھ سلطنت تھی، ایک ایسی سلطنت جو طاقت، مزاج اور حکمتِ عملی کے اعتبار سے مسلمانوں کی حریف نہیں بلکہ ان کی وجودی دشمن تھی۔ اسی پس منظر میں تحریکِ جہاد ایک مذہبی اصلاحی تحریک کی صورت اُن علاقوں میں ابھری جو مکمل طور پر کمپنی کے زیرِ نگیں تھے۔
اس تحریک کی مالی اور افرادی پشت پناہی اُن ہی نوابوں اور والیانِ ریاست نے کی جن کا سیاسی وجود، دست و بازو اور مراعات سب کمپنی کی عطا تھے۔ یوں تحریکِ جہاد ابتدا ہی سے ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھی جہاں استعمار اس کا بالواسطہ سرپرست اور اس کی پیش رفت کا اصل سیاسی ضامن تھا۔ رفتہ رفتہ اصلاحی دعوت عسکری تنظیم میں تبدیل ہوئی، سکھ سلطنت کے خلاف جہاد کرنے سرحدی قبائلی علاقوں تک پہنچی اور وہاں اس نے ایک نیم ریاستی (proto-state) ڈھانچہ قائم کیا۔ چونکہ تحریکِ جہاد عقیدۂ توحید کی نظریہ کاری (ideologization) کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، اس لیے اصلاح سے عسکریت کا سفر اس کے فطری میلان کا حصہ تھا، کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ ہر نظریہ، مذہبی یا غیر مذہبی، جنم لیتے ہی طاقت کی طرف لپکتا ہے اور اپنے لیے ایک Legitimization narrative تراشتا ہے۔ تحریکِ جہاد نے یہ جواز سکھوں کے خلاف جہاد کی صورت میں پیدا کیا۔
صورتِ حال اُس وقت پیچیدہ ہوئی جب تحریک نے مقامی مسلمانوں سے محض سکھوں کے خلاف جہاد میں مدد کی بجائے سید صاحب کی سیاسی اور دینی اطاعت کا مطالبہ بھی کیا۔ تحریک نے کلمہ گو سنی مسلمانوں کو اس نئے نظریہ توحید کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کیا دیا۔ سکھ قوت پس منظر میں چلی گئی اور اصل ہدف وہ مسلمان بن گئے جن کے عقائد، روایت، ثقافت، مذہبی رسوم اور سماجی نظم اس نئے نظریۂ توحید کے زاویے سے بدعت، گمراہی اور شرک کے مظاہر قرار پائے۔ نتیجتاً سید احمد کے دور میں چودہ جنگی معرکوں میں سے نو معرکے مسلمانوں کے خلاف ہوئے، جن میں قتل عام، لوٹ مار اور عورتوں کو باندیاں بنانے جیسے اقدامات شامل تھے۔ اس پورے عرصے میں تحریکِ جہاد نے استعمار کے ساتھ پوری طرح اغماز برتا، اس کی قانونی و مالی مدد حاصل کی اور اپنے اصل ہدف یعنی عام سنّی مسلمانوں کے خلاف عسکری طاقت بے دریغ استعمال کی۔ تحریکِ جہاد چونکہ ایک totalising نظریہ کی حامل تھی، جو عقیدۂ توحید کی weaponization کا نتیجہ تھا، اس لیے اس کا پہلا اور سب سے بنیادی نشانہ عامۃ المسلمین ہی تھے، نہ کہ استعمار یا سکھ سلطنت۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال، ایک عام پاکستانی مسلمان کیلئے، اُسی ساختی منطق کے ساتھ چل رہی ہے، جو تحریک جہاد کے وقت تھی۔ ریاست پاکستان آج امریکی قیادت میں قائم مغربی استعمار کے معاشی و سیاسی کنٹرول میں ہے۔ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف طے کرتا ہے اور ہمارا معاشی وجود اُن جدید "princely states" یعنی سعودی عرب، امارات اور قطر وغیرہ، کی مالی خیرات کا مرہونِ منت ہے، جو استعمار کی تشکیل کردہ ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کا قبلہ مغرب اور اس کی قائم کردہ princely states ہیں اور غزہ کے معاملے پر ہمارا ریاستی رویہ اور پالیسی اس کا واضح مظہر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یوکرین جنگ کے بعد بھارت نے امریکی تسلط کے سامنے معمولی مزاحمت دکھائی ہے، مگر مودی کا قائم کردہ بھارت مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے، بالکل ویسے ہی جیسے سکھ سلطنت 1830ء کے آس پاس تھی۔
ریاستِ پاکستان استعمار کے سامنے جھکی ہوئی ہے، مگر داخلی سیاسی Legitimization کے لیے اس نے موجودہ عالمی استعمار سے معمولی اختلاف کرنے والی مقامی قوت کے خلاف ایک جھڑپ میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس کے ساتھ "بھارت نواز خارجیوں" کے عنوان سے مستقل جنگ کے لیے درکار دشمن اور فکری و سیاسی وسائل مہیا کر لیے ہیں۔ اس بیانیہ کو استعمال کرتے ہوئے ریاست نے اپنے شہریوں کے خلاف ایک مستقل جنگی فضا قائم رکھی ہے اور تحریک جہاد کی طرح سرکش اور "سیاسی طور پر بدعقیدہ" مسلمانوں کی اصلاح اور معاشرتی تطہیر (eradication) کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق اب دستانے اتر گئے ہیں اور عام مسلمانوں کے پاس اب کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
اس پورے منظرنامے میں سب سے قابلِ توجہ کردار مذہبی سیاسی ذہن کا ہے۔ چونکہ برصغیر کا مذہبی سیاسی ذہن تحریکِ جہاد اور نظریہ کاری شدہ توحید کی پیداوار ہے، اس لیے آج بھی وہ اُس کی ہی ساختی منطق کے تحت کام کر رہا ہے۔ وہ ریاستی طاقت کے سامنے عجز کو تقویٰ سمجھتا ہے، استعمار کی چاپلوسی کو حکمت اور ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کو "فتنہ"، "کلٹ" یا "radical" قرار دیتا ہے۔ یہ لوگ ٹرمپ کی تعریفوں پر خوش ہوتے ہیں، ریاست کی سرنگونی کے نتیجے میں ملنے والی شاباشی پر جشن مناتے ہیں اور کلمہ گو مسلمانوں کے ریاستی و ادارہ جاتی استحصال کو لازمی تطہیری عمل سمجھتے ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی سیاست جدید ریاست کے لیے وہی کردار ادا کر رہی ہے جو کبھی استعمار کے وظیفہ خوار نوابوں نے تحریکِ جہاد کے لیے کیا تھا۔ فرق بس یہ ہے کہ نواب مالی مدد کرتے تھے، جبکہ ہمارا مذہبی طبقہ اخلاقی اور دینی جواز فراہم کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال علماء و مشائخ کانفرنس میں علماء کا متفقہ طور پر سامنے آنے والا بیانیہ ہے، جسے وہ مختلف عنوانات سے اسلام کا لبادہ پہناتے رہے اور اس کا نتیجہ سوائے علماء سے نفرت اور معاشرے کی مزید secularization کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔

