Ducky Bhai Ke Sath Ghalat Hua Magar
ڈکی بھائی کے ساتھ غلط ہوا مگر

ڈکی بھائی کے ساتھ جو سلوک ہوا غیر انسانی ہوا۔ غلط ہوا۔ ریاستی اہلکاروں کی جانب سے بلیک میلنگ ہوئی جو افسوسناک ہے۔ سعد الرحمان عرف ڈکی بھائی کے ساتھ جو ہوا انہوں نے وہ بتا دیا لیکن ان کی جو ہسٹری ہے وہ نہیں بتاتے اور اس پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ ان کی وجہ شہرت یوٹیوب پر ٹرولنگ کرنے، اول فول لینگوئج کا بے دریغ استعمال، فیملی ویلاگنگ کے نام پر گھٹیاپن، پیسے کا شو آف، ٹین ایج بچوں یا اپنی فالونگ کو اخلاقی گراوٹ پر مائل کرنے کے ساتھ ان کی ساری زندگی سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو لُچ لفنگ دکھانے، روسٹنگ کی جانب مائل کرکے کول لگنے کا درس دینے، جھوٹ کا کاروبار کرنے، نامناسب الفاظ کا بے دریغ استعمال کرنے، اپنی قماش کے دیگر یوٹیوبرز کو دھمکیاں دینے، آن لائن بدمعاشی کرنے اور ایک سے بڑھ کر ایک مالی و اخلاقی تنازعات میں گھسنے کی ہے۔
ڈکی بھائی، ندیم نانی والا، بھولا ریکارڈ، سسٹرالوجی، رجب بٹ وغیرہ قماش کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ٹچے پن یا سراسر بیہودگی کا گیٹ کھولا ہے۔ یہ بھی اتنا ہی افسوسناک ہے۔ ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے اس پر بھی دو آنسو بہا لیتے تو اچھا تھا۔ ٹک ٹاک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفسیاتی بیماریوں کے شکار لوگوں کا ہجوم ہے۔ ایک بدنام صفت آنجہانی گورے کا قول یاد آ گیا "اگر تم اپنی کسی قابلیت سے مشہور نہیں ہو سکتے تو اپنی کسی نیچ حرکت سے بدنام ہو جاؤ"۔ لوگوں نے یہی کلیہ اپنا رکھا ہے کیونکہ ہنر دکھانے کو اور کچھ ہے نہیں۔ عوام انٹرٹینمنٹ مانگتی ہے۔ وہ بھی سستی، ننگی اور ٹُچی۔۔
ہائے یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز سے فوراً کمائی کرنے کی تگ و دو میں ننگا کھڑا سماج۔ ویوز لینے کے واسطے باندر بن کر الٹا لٹکتے لوگ۔ فیملی ویلاگنگ کا نیچ ٹرینڈ۔ خونی و قانونی رشتوں کی آن لائن سیل۔ گھٹیا، ذو معنی تھمب نیلز کا کاروبار، جعلی خبروں کا دھندا۔ زرد صحافت کے لاروں کی کالونی۔ اپنی خواہشات کے رنگ میں "تجزئیے"۔ جسمانی نمائش کا بازار۔ گالم گلوچ زبان۔ گھٹیا جنسی مواد پر مبنی ویڈیوز۔ بھولا ریکارڈ جنریشن۔ جو جتنا نیچ اس کا چینل اتنا کامیاب۔ مسلسل نان سٹاپ فضول اور بے ربط بولنے کی مشقیں۔ کانٹینٹ کی ہوس میں جعلی پروڈکشن۔ ایک سے بڑھ کر ایک مداری اور ان کے آگے باندر بن کر ناچتی نسلیں۔ نفسیاتی بیماریوں کے شکار لوگوں کا ہجوم ہے۔
تعلیم سے دور، شعور سے پڑے ایک ہجوم ہے جس کے ہاتھ ڈالر کمانے کا ذریعہ لگ چکا ہے۔ نہ کوئی اخلاقیات باقی رہی ہیں نہ ہی کوئی اصول باقی ہیں۔ جو منہ میں آئے ہانک دو۔ جب دل چاہے بے لباس ہو جاؤ۔ اپنی بیڈروم سمیت رشتوں کی نمائش لگا دو۔ صرف ایک ویو کی خاطر اور یہ ویوورز کوئی مریخ پر نہیں بستے۔ اسی سماج کا حصہ ہیں۔ اسی دھرتی کے "باشعور" باسی اور کسی نہ کسی کے ووٹر سپورٹر ہیں۔ ارسطو نے کہا تھا "انسان سماجی جانور ہے" مگر مجھے تو لگتا ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان میں یوٹیوب و ٹک ٹاک واقعی جانوروں کا اڈہ ہے جہاں ہر کسی نے اپنے کرتب پر ٹکٹ لگا رکھی ہے۔
جس طرف دیکھو ہر جگہ تاحدِ نظر زوال ہے۔ ایک گرد و غبار کا طوفان ہے جس کے بیچ ہم جیسے منہ ڈھانپے سانس لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہوا آلودہ ہو چکی ہے۔ آج کے دور میں وہی کچھ ہٹ ہے جو بک رہا ہے اور جو بک رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اصل میں تو ہمارا ذہنی شعور ہی اتنا ہے جس کے لیول کو آجکل کا کانٹینٹ بخوبی پورا کر رہا ہے۔ معاشرے ترقی کرتے ہیں ادھر ہر شعبے میں ریورس گیئر لگا ہوا ہے۔
آپ یوٹیوب کو دیکھ لیں۔ وہاں وہ بندہ ہٹ ہے جو گالم گلوچ، بے سرو پا نری بکواس، نان اسٹاپ بے لاگ بے ڈھنگے جملے بول سکے۔ یا اچھل کود کرکے دکھا دے یا چاردیواری کے اندر اپنے رشتے دکھا دے۔ وہی سننے، دیکھنے لوگ جاتے ہیں۔ آپ میوزک کو دیکھ لیں، نثر کو دیکھ لیں۔ پچھلی ڈیڑھ دو دہائی سے ایسی کتاب، ایسا ناول، ایسی شاعری نہیں آ سکی جو اردو ادب میں مدتوں یاد رکھنے کے قابل ہو۔
مسئلہ کبھی بھی کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ تو ہماری من حیث القوم گراوٹ کا ہے۔ ہمارا ذہنی معیار ہی اتنا ہے کہ بیہودگی، لچڑ پن، گالم گلوچ کلچر، ٹھمکے، اول فول ہی پسند کیا جاتا ہے۔ اس قوم کی تربیت کوئی مائی کا لعل نہیں کر سکتا۔ جان کی امان پاؤں تو میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ میدان حشر میں اپنی جہالت سمیت ایسے ہی پہنچیں گے۔ اس قوم کو جاہل اجڈ بڑی محنت سے بنایا گیا ہے۔ ملائیت، انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کی جانب ریاست نے ہی راغب رکھا ہے۔ ریاست نے اس قوم کو جنگی جنونیت میں مبتلا رکھا وہی ان کو سوٹ کرتا تھا۔ تعلیم و تربیت کی ہی نہیں گئی۔ نصاب جعلی، نعرے جعلی، قیادت جعلی۔ آپ یہاں عقل کی بات لکھ کر دیکھیئے۔ آپ کو ایسے ایسے فتوے ملیں گے اور گالیاں بونس میں۔
لوگوں کے بیاہ و طلاق جیسا نجی معاملہ ہو، کسی دس نمبر ٹک ٹاک فیم کو بلا کر مارننگ ٹرانسمیشن کرنی ہو، اچھل کود، ناچم ناچ، سرکس ڈانس یا پھر ٹاک شوز جن میں کسی نہ کسی کی شلوار اتارنا مشن ہو۔ مملکت خداداد پاکستان میں تو بھیا یہی کچھ ہے۔ سارے تفریحی شوز اٹھا لیں یا تو وہ بھارتی پروگرام کا چربہ ہیں یا امریکی شوز کی کاپی۔ اب تو کوئی کمرشل مولوی ہو جو دین سکھائے ٹی وی پر، کوئی بے سرا ہو جو موسیقی پروگرام کا جج بن سکے، کوئی مداری ہو جو اچھل اچھل کر خود بھی سانس پھلائے اور حاضرین کا بھی ڈسکو ڈانس کروائے۔۔ اینکر ہو کوئی جو نان سٹاپ بولنے کا فن رکھتا ہو قطع نظر اس کے کہ بولنا کیا ہے۔
حاجی ذخیرہ اندوز، سرکاری عہدوں پر ڈاکو، بے حس تاجر، بد عنوان سیاستدان، بدکار ملا اور تماشائی عوام۔ سب انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں۔
ایک قصہ یاد آ رہا ہے۔ ایک صوفی تھکا ہارا جنگل سے گزر رہا تھا اور چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں جنگل کے جانوروں کا اجتماع تھا اور محفل مباحثہ گرم تھی۔ اس صوفی کو چونکہ جانوروں کی بولیوں کا علم تھا اس لیے وہ رک کر سننے لگا۔ مباحثے کی صدارت ایک بوڑھے شیر کے سپرد تھی۔
سب سے پہلے لومڑی اسٹیج پر آئی اور بولی "بردارنِ دشت سنئیے اور یاد رکھئیے کہ چاند سورج سے بڑا ہے اور اس زیادہ روشن ہے"۔
ہاتھی نے اپنی باری پر کہا " گرمیاں سردیوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں"۔
جب باگھ اسٹیج پر آیا تو سارے جانور اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئے۔ اس نے اپنے پیلے بدن پر سیاہ دھاریوں کو لہرا کر کہا "سنو بھائیو! دریا ہمیشہ سے اوپر کو چڑھتے ہیں"۔
صوفی نے شیر ببر سے کہا جنابِ صدر! یہ سب غضب کے مقرر ہیں اور ان کی وضاحت نے اس محفل کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ سارے مقررین نے سارے ہی بیان غلط دیئے ہیں اور ہر بات اُلٹ کہی ہے۔ سامعین کو یا تو پتہ نہیں یا انہوں نے توجہ نہیں دی یا پھر وہ لا تعلقی سے سنتے رہے ہیں۔ ایسی احمقانہ اور غلط باتیں کرنے کی کس نے اجازت دی؟
شیر نے کہا " صوفی صاحب! یہ واقعی ایک عیب دار بات ہے اور شرمناک بات ہے لیکن ہمارے سامعین انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں۔ انلائٹنمنٹ (Enlightenment) نہیں۔ پتہ نہیں ہم کو یہ عادت کیسے پڑی لیکن پڑ گئی ہے صوفی صاحب"۔
جب آپ کی جانب سے سماج کو گالم گلوچ، شو آف، بدتہذیبی، ہاتھ چھوڑنے اور لفنگے پن کا ہی درس دیا گیا تو وہ لوٹ کر آپ کی طرف بھی تو آنا تھا۔ یہ دائرہ ہوتا ہے۔
What Goes Around.. Comes Around
غلط ہوا اور امید ہے یہ سبق آموز بھی ہوگا۔ جنہوں نے ڈکی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا وہ مجرم ہیں اور بمطابق قانون سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ڈکی جو کرتا رہا وہ قابل مذمت ہے اور جو ریاستی اہلکاروں نے کیا وہ دس گنا زیادہ قابل مذمت ہے۔ جن ریاستی اہلکاروں نے یہ سب کیا ان کو سبق مل گیا ہے۔ امید ہے ڈکی بھائی بھی سیکھ لیں گے۔

