Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Mian Nawaz Sharif Se Samundar Paar Se Aik Dard Mandana Aajizana Darkhwast

Mian Nawaz Sharif Se Samundar Paar Se Aik Dard Mandana Aajizana Darkhwast

میاں نواز شریف سے سمندر پار سے ایک دردمندانہ عاجزانہ درخواست

اہلِ دل جانتے ہیں کہ جب کوئی بندہ مسلسل ایک ہی فریاد دہراتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ ضد، ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی درد ایسا ہے جو زبان بند کرنے پر بھی دل کے دروازے سے باہر جھانکتا رہتا ہے۔ کچھ عرضیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے اپنے لیے نہیں ہوتیں بلکہ ان ہزاروں چہروں کے لیے ہوتی ہیں جو اس کی آنکھوں کے سامنے کسی امانت کی صورت رہتے ہیں۔

میری یہ فریاد بھی انہی چہروں کی امانت ہے، انہی غریب محنت کش سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے جنہوں نے اپنی ہڈیاں پسینے میں پگھلا کر اس ملک کی بنیادوں کو مضبوط کیا، لیکن آج ایک بنیادی حق سے محروم کھڑے ہیں۔ یہ اپیل کسی ذاتی خواہش، کسی ذاتی فائدے یا کسی ذاتی خواہش کی ترجمانی ہرگز نہیں کرتی، بلکہ ان لاکھوں پاکستانی گھروں کی بازگشت ہے جن کے بچوں نے برسوں سے ایک امید کو تھام رکھا تھا کہ پاکستان میں مخصوص سمندر پار میڈیکل کوٹے کے تحت انہیں بھی ایک جائز اور برحق راستہ میسر رہے گا۔ دو برس قبل ان کا یہ حق خاموشی سے چھین لیا گیا۔ ایک ایسی محرومی جس پر ابھی تک کسی نے ٹھہر کر غور نہیں کیا، حالانکہ اس کا اثر سب سے زیادہ اسی محنت کش طبقے پر پڑا ہے جو ملک سے باہر رہ کر پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کو اپنے خونِ جگر سے سینچتا ہے۔

محترم میاں نواز شریف صاحب، آپ نے اس ملک کے لیے بے شمار خدمات انجام دی ہیں۔ یہ ایک ایسی ان مٹ حقیقت ہے جسے نہ تعصب جھٹلا سکتا ہے، نہ کوئی مہم جوئی، نہ وقت، نہ تاریخ۔ آپ کی سیاست کا سب سے روشن پہلو ہمیشہ وہی رہا ہے کہ غریب کی آس نہ ٹوٹے، اس کا ہاتھ نہ خالی رہے۔ عوام نے آپ کی یہی خصوصیت دیکھی، اسی وجہ سے آج بھی لاکھوں دلوں میں آپ کے لیے محبت کے چراغ روشن ہے۔ آپ خود بھی سمندر پار کی زندگی کے نشیب و فراز سے گزر چکے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پردیس صرف پیسہ بھیجنے کا نام نہیں، یہ تنہائی، جدائی، تکلیف، محنت کی مسلسل بھٹی اور گھر سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی وطن کے درد سے جڑے رہنے کا نام ہے۔

ان غریب سمندر پار مزدوروں کی زندگی خالی کمروں اور سخت اوقات میں گزرتی ہے، لیکن ان کی نگاہیں ہمیشہ پاکستان کی طرف لگی رہتی ہیں۔ یہی اوورسیز پاکستانی آج اس کالم کی اصل روح ہیں۔ ان کے بچوں کے دلوں سے برسوں سے جڑا ہوا وہ سہارا چند خوشحال سمندر پار افراد کی خود غرضی کی وجہ سے چھین لیا گیا۔ جو بیرون ملک رہتے ضرور ہیں لیکن ایسی آسائشوں میں کہ ان کے بچے محنت سے عاری اور لگژری کے عادی ہو جانے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں ان محنت کش بچوں سے مقابلہ نہ کر سکے۔ تو ان خود غرض محنت و مشقت سے عاری مہم جوؤں نے ایک مہم اور فالتو پیسے کے ذریعے سب کے لیے فائدہ مند اس سمندر پار میڈیکل کوٹے، جو دہائیوں سے چل رہا تھا، ایک ہی حکم سے معذور کروا دیا۔

ہزاروں محنت کش پاکستانیوں نے سالوں انہی مفت میڈیکل سیٹوں پر اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنتے دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں یہ روشنی تھی کہ کم از کم تعلیم کا دروازہ ان کے بچوں پر بند نہیں ہوگا۔ لیکن دو برس قبل نہ صرف یہ کوٹہ بدل دیا گیا بلکہ فیس بھی اتنی بڑھا دی گئی کہ اب یہ تعلیم غریب کے بس سے باہر نہیں بلکہ اس کی پوری زندگی کی کمائی سے بھی آگے کی بات لگتی ہے۔ دس ہزار ڈالر سالانہ فیس ایک مزدور کے لیے نہیں، کسی عام تنخواہ دار کے لیے بھی ایک خواب ہی ہے۔ یہ صورتِ حال اس وقت اور زیادہ دردناک ہو جاتی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ اس تبدیلی کا فائدہ بھی انہی چند آسودہ گھرانوں نے اٹھایا جو پہلے ہی بے شمار سہولتوں میں رہتے ہیں۔ یوں ایک حق تلفی غریب کے مستقبل سے جڑی ہوئی نسلوں تک جا پہنچی۔

محترم نواز شریف صاحب! آپ کے دروازے پر آج یہ اپیل دوبارہ نہیں بلکہ مسلسل بارہا دستک دے رہی ہے۔ پچھلے سال مجھے آپ کی دختر نیک اور وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف کے دفتر سے باقاعدہ فون کرکے بتایا گیا تھا کہ میری درخواست وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی میز پر موجود ہے اور امید دلائی گئی تھی کہ اس پر جلد اقدام ہوگا۔ ایک سال بیت گیا، لیکن فیصلہ ابھی تک انتظار کے دروازے پر کھڑا ہے اور یہ انتظار صرف میرا نہیں، یہ ان ہزاروں سمندر پار غریب والدین کا ہے جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بے سہارگی کے اندھیروں میں نہ پھینکے جائیں۔ یہ اپیل اس سال بھی اسی شدت کے ساتھ کھڑی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب میڈیکل داخلوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ ہر گزرتا دن کسی بچے کا خواب کمزور کرتا ہے، کسی ماں کی دعا کو تھامے رکھتا ہے، کسی باپ کی محنت کو بے وقعت کرتا ہے۔

میں آپ سے انتہائی عاجزی سے گزارش کرتا ہوں کہ پورے خلوص کے ساتھ اس نظام کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا جائے۔ وہی مفت تعلیم، وہی مخصوص کوٹہ، وہی سہولتیں جو غریب محنت کش اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کا حق تھیں۔ اگر بحالی کی جائے تو یہ نہ صرف انصاف کا قیام ہوگا بلکہ ان دلوں کی مرہم پٹی بھی ہوگی جو اس ملک کی محبت میں باہر دیس میں بھی ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ بحالی کسی سے انتقام نہیں، کسی کے خلاف کوئی آواز نہیں، یہ صرف اور صرف انصاف کی بحالی ہے اور اس سے بڑھ کر ملک سے محبت کی کوئی مثال ممکن نہیں۔

میں آخر میں اُن چند لوگوں سے بھی ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس کوٹے کو اپنے حق میں کروانے کے لیے مہم چلائی اور نتیجے میں غریبوں کا راستہ روک دیا۔ زندگی میں کبھی کسی حق کو اپنے لیے محدود نہ کریں۔ جو چیز سب کے لیے ہو، وہ سب کی امانت ہوتی ہے۔ ایسے فیصلے کبھی دیرپا خیر نہیں دیتے۔ اللہ نے ہر انسان کے رزق اور نصیب کا فیصلہ لکھ رکھا ہے، کسی دوسرے کا حق کھینچ کر اپنا بنانا دنیا میں شاید وقتی فائدہ دے لیکن انجام ہمیشہ کھوکھلا رہ جاتا ہے۔ آج وہ کوٹہ جن لوگوں نے اپنے لیے لیا، وہ بھی اب بھاری ڈالر فیس کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انصاف ہے جو ہمیشہ خاموشی سے اپنا راستہ بناتا ہے۔

محترم میاں نواز شریف صاحب! آپ ہمیشہ سے غریب کے سر پر ہاتھ رکھنے والوں میں سے رہے ہیں۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے، آپ کی صحت، آپ کی زندگی اور آپ کے خاندان کو برکتوں سے بھر دے۔ میری آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اسی سال، اسی سیشن میں، اسی موسمِ داخلہ میں، ان غریب بچوں کے چہروں سے امید کا رنگ مدھم نہ ہونے دیجئے۔ ان کا حق انہی کو واپس دیجئے، کیونکہ یہی وہ فیصلہ ہے جسے اللہ بھی پسند فرمائے گا اور قوم بھی۔ اللہ آپ کے فیصلوں میں خیر ڈالے اور انہیں قبولیت عطا فرمائے۔

Check Also

Merit Ko Chatna Hai?

By Rauf Klasra