Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Inam Ur Rehman
  4. Ghulami Se Abtar Hai Be Yaqeeni

Ghulami Se Abtar Hai Be Yaqeeni

غلامی سے ابتر ہے بے یقینی

غلامی کی الگ نفسیات ہوتی ہیں، اکثر پڑھا ہے کہ کسی غلام کو کہا گیا جاؤ تم آزاد ہو تو اسے یقین ہی نہیں آتا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ وطن عزیز میں بے یقینی کی وجہ کچھ اور ہے کیونکہ معاشی آزادی کے نعرے لگانے والے بھی عملی تجاویز سننے سمجھنےکے روادار نہیں۔ تادم تحریر سیاسی قیادت کی نیت، اہلیت، وژن، ترجیحات سب چوپٹ ہیں۔ اھلیت یا وژن سے قطع نظر ریاست اپنے طور پر ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کرے تو اکثر سیاسی قیادت ہی اس پر پانی پھیرنے میدان میں اتر آتی ہے۔ سادہ عوام حیران پریشان بیٹھے دیکھتےہیں، اکثر کی رائے یہی ہے کہ "ایتھے کج نئیں ہونا"۔

افسوس اس پڑھے لکھے طبقے پر ہوتا ہے جسے شعور کا بڑا زعم ہے لیکن عملی طور پر ناکارہ ہے بلکہ باقاعدہ بگاڑ کیلئے کوشاں ہے۔ اینٹ اٹھائیں تو نیچے سے ماسٹرز، ایم فل یا پی ایچ ڈی نکل آئے گا لیکن مسائل کا فہم اور عملی روح مفقود ہے۔ ملک کے سب سے مشہور پی ایچ ڈی ہائیڈرو جیالوجسٹ ہر جگہ شور مچاتے پھرتے ہیں کہ ڈیمز سیلابوں کو نہیں روکتے بلکہ تباہی مزید بڑھا دیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہیں کہ دوائی سے صحت نہیں ملتی بلکہ بندہ مر جاتا ہے، یا روٹی کھانے سے بھوک نہیں مٹتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے یا رضائی اوڑھنے سے سردی کم نہیں ہوتی بلکہ بندہ جم جاتا ہے۔

اس واضح علمی خیانت کو میڈیا پر اندھا دھند کوریج بھی ملتی ہے تو یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ آغا وقار یاد ہوگا جس نے پانی سے گاڑی چلانے کا فراڈ کیا تھا اور پورا میڈیا اس کی کوریج کررہا تھا۔ اس کا بلبلہ تو چند دن میں پھٹ گیا لیکن اسکی مثال ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اتنی کثرت سے استعمال کرتے ہیں کہ اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اپنا مشن کیا ہے یہ علیحدہ بحث ہے کیونکہ وہ ملکی مسائل کا حل بتانے کی بجائے مخصوص ذھن سازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انکا ذکر اسلئے بھی آگیا کہ انکا فورم ماحولیات کے نام پر ڈیمز کی نفرت کو پروموٹ کرتا ہے اور ڈیم مخالف لابی کو کافی کوریج دیتا ہے۔

ایک محترم دوست نے فرمایا کہ ڈاکٹر پرویز کے بلیک ہول چینل پر آبی مسائل پر بات کریں۔ میں نے کہا وہ چینل اس کام کیلئے نہیں بنا لیکن آپ کو شک ہو تو بات کرکے دیکھ لیں۔ دراصل مذھبی فرقوں کی طرح لبرلز کے عقائد بھی اتنے انتہا پسند ہوچکے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کا تکلف ختم ہوگیا ہے۔ مجھے امید نہیں بلیک ہول والے کبھی مجھ جیسےکو بات یا بحث کا موقع دیں گے، لیکن دعوت آئی تو پیشگی قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔

بحث کا ذکر اسلئے کیا کہ لبرلز کی ماحولیاتی لابی ڈیم بیراجز اکھاڑنے سے کم پر راضی نہیں ہوتی، کھربوں ڈالر کا پانی ضائع کرنے کو کامیابی دکھاتی ہے، خشک سالی اور سیلاب کو چندہ خوری کا مستقل وسیلہ سمجھتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دریا اور اسکا طاس مختلف ہوتا ہے، نقل نہیں عقل کو ہاتھ ماریں تو تربیلا کی سلٹ اور پانی ڈیم اکھاڑے بغیر سمندر تک پہنچ سکتے ہیں، سیلابہ سٹور ہوسکتا ہےتو سیلاب سے بچاؤ کے ساتھ معیشت اور ماحولیات دونوں ٹھیک ہوجائیں گے۔

ملکی ضرورت سے دگنی بجلی بارہ آنے فی یونٹ ملے تو انڈسٹری اور کرنسی میں دوبارہ جان پڑ جائے گی۔ اگر ان فگرز میں شک ہے تو جتنے چاہے ماہرین بلا کر ناچیز کی کلاس لیں، مدت سے آرزو ہے کہ سیدھا کرے کوئی۔ تھوڑی انٹرٹینمنٹ بھی ریکارڈ ہوجائے گی، ورنہ مان لیں کہ گل وچوں کوئی ہور اے۔ ویسے ڈاکٹر حسن عباس ایک اکانومسٹ ڈاکٹر تیمور رحمن کے اعتراضات کا جواب نہ دے سکے تو انکے موقف کا کیا اعتبار؟ غالب امکان ہے کہ وہ تو راضی نہیں ہونگے لیکن اپنی طرف سے کھلی دعوت ہے اور بھی جتنے چاہیں لے آئیں۔

ٹی وی چینلز بجلی پانی کے مسائل پر بات نہیں کرتے، کیونکہ ہرفن مولا اینکرز تکنیکی موضوعات سے بہت ڈرتے ہیں۔ رہی سہی کسر مالکوں کی ترجیحات اور ایجنڈا نکال دیتے ہیں۔

بڑے اور مصروف بابوؤں تک اپنی پہنچ نہیں اسلئے تحریر میں ساری بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ جسے ضرورت پڑی یہیں سے سمجھ لے گا۔ اتنا عرض ہے کہ سی پیک اور ایس آئی ایف سی کو بھی واپڈا، ریلوے، پی آئی اے اور سٹیل مل کی طرح چلانا ہے تو انجام انکا بھی وہی ہوگا۔ آپکی نیت، اھلیت، ویژن پر کیا شک کرنا ترجیحات البتہ ٹھیک کرلیں۔ سواں ڈیم جیسے اہم ترین سٹریٹیجک منصوبے کی زمینوں پر نوسربازدھڑادھڑ غیرقانونی ہاوسنگ سکیمیں بیچ رہے ہیں۔ انکا احتساب کریں اور قبضے چھڑا کر ملکی مسائل حل کریں۔ عوام پر ترس کھائیں، کبھی انکا بھی بھلا سوچ لیں۔

Check Also

Trump Ki Property Dealer Wali Hikmat e Amli

By Nusrat Javed