Mulki Zawal Ka Malba Madais Par Kyun?
ملکی زوال کا ملبہ مدارس پر کیوں؟

ملک میں ترقی نہ ہونے، معیشت کے بحران میں پھنس جانے یا ریاستی اداروں کی ناکامی کی بات جب ہوتی ہے تو ایک عجیب روایت سامنے آتی ہے کہ مدارس اور علماء کو سب سے آسان ہدف بنا لیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں حالیہ علماء و مشائخ کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ تاثر عام کیا گیا کہ آرمی چیف نے ملکی ترقی میں مدارس کے کردار پر تشویش ظاہر کی ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتی ذمہ داران کی جانب سے یہ اعتراض بارہا سامنے آتا رہا ہے کہ مدارس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے یا وہ رکاوٹ ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال ازسرِنو اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا واقعی ملکی پسماندگی کا بوجھ مدارس پر ڈالنا درست ہے؟
سب سے پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہ ملک کی ترقی اور معیشت کی مضبوطی کے ذمہ دار کون ہیں؟ انتظامی ڈھانچہ، وزارتیں، محکمے، بیوروکریسی، ترقیاتی ادارے، سرکاری مشینری، معاشی ٹیمیں، ٹیکنالوجی کے شعبے، صحت، صنعت اور قومی تعلیمی نظام، یہ سب وہ شعبے ہیں جن کے پاس اختیار، بجٹ، پالیسی سازی اور فیصلوں کی طاقت موجود ہے۔ اگر معیشت کمزور ہو، تعلیم زوال کا شکار ہو یا ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں تو بنیادی ذمہ داری انہی اداروں پر عائد ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں وسائل اور اختیار ہیں، مدارس پر نہیں۔ ملک میں ہر سال بے تحاشا کرپشن ہوتی ہے، جو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، جس میں مدارس ہرگز ملوث نہیں، اس کرپشن کی روک تھام بھی مولویوں کی ذمہ داری نہیں۔
مدارس نہ تو کسی وزارت یا محکمے کے سربراہ ہیں، نہ ان کے پاس سرکاری خزانے کی کنجیاں ہیں اور نہ ہی ترقیاتی پالیسیوں میں ان کا فیصلہ کن کردار ہے۔ یہ ادارے اینٹ اینٹ جوڑ کر بنتے ہیں، خیرات و صدقات سے چلتے ہیں اور اللہ پر توکل کے ساتھ قوم کے بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ واحد شعبہ ہے جس نے ریاستی بجٹ کا بوجھ نہیں بڑھایا، بلکہ بغیر کسی سرکاری امداد کے لاکھوں بچوں کو تعلیم دی۔ مدارس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی یا معیشت سنبھالیں گے۔ قرآن و سنت، اخلاق و تربیت اور سماجی اصلاح ان کا دائرہ کار ہے۔ اسی دائرے میں انہوں نے نمایاں اور قابلِ قدر کارکردگی دکھائی ہے۔
غربت کے باعث اسکول نہ جا سکنے والے لاکھوں بچے مدارس سے مفت تعلیم پا رہے ہیں۔ ہزاروں اساتذہ بغیر سرکاری تنخواہ کے علم بانٹ رہے ہیں۔ مساجد آباد ہیں، محلے قرآن کے نور سے روشن ہیں اور دینی تعلیم کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ایسے بے شمار طلبہ موجود ہیں جو مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر پی ایچ ڈی تک پہنچے اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہ سب کچھ بغیر سرکاری بجٹ اور خصوصی مراعات کے ممکن ہوا، یہ حقیقت مدارس کی اجتماعی محنت اور قربانی کی گواہ ہے۔
اگر مدارس اپنی ذمہ داریوں میں کہیں کوتاہی کریں تو اس پر تنقید ہونی چاہیے۔ اگر کسی مقام پر اصلاح کی ضرورت ہو تو اس پر بات بھی ہونی چاہیے، مگر وہ ذمہ داریاں جو مدارس کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں، انہیں ان کے کھاتے میں ڈال دینا صریح ناانصافی ہے۔ دوسری طرف ریاستی وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود سرکاری تعلیمی نظام کی صورتِ حال دیکھیے۔ ہزاروں اسکول بند یا نجی شعبے کے حوالے، اساتذہ بنیادی مراعات کے لیے دربدر اور اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود کمزور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اگر مسائل ان اداروں میں ہیں جنہیں اختیار اور وسائل دیے گئے ہیں تو سوال مدارس سے ہرگز نہیں بنتا۔
مدارس کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے، بلکہ اصل ذمہ داروں سے توجہ ہٹا کر ایک کمزور طبقے پر بوجھ ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت، صنعت اور جدید تعلیم میں پسماندگی کی ذمہ داری انہی شعبوں پر عائد ہوتی ہے جنہیں اربوں کے بجٹ، ترقیاتی فنڈز اور مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ مدارس نے بغیر بجٹ، بغیر پروٹوکول اور بغیر کسی مطالبے کے اپنی خدمت جاری رکھی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں مذہب مخالف یا مذہب بیزار بیانیہ رکھنے والی شخصیات نے اپنے غصے کا رخ مدارس، علماء اور مساجد کی طرف موڑا۔ سابق وزیر فواد چوہدری کا یہ بیان کہ "اگر پاکستان کا مستقبل سنوارنا ہے تو مولویوں کا طاقتور دفاتر میں داخلہ بند کر دیں" اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، حالانکہ سوال یہ ہے کہ طاقتور دفاتر میں آخر کون بیٹھتا ہے؟ وزارتیں، پالیسی سازی، بجٹ کی تقسیم اور ادارہ جاتی اصلاحات کن کے ہاتھ میں ہوتی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اہم شعبے انہی افراد کے کنٹرول میں رہے، مگر جب نتائج سامنے آئے تو الزام مولویوں پر ڈال دیا گیا۔ یہ رویہ فکری دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ مدارس اور علماء نہ معاشی ٹیموں کا حصہ ہیں، نہ صنعتی پالیسیاں بناتے ہیں اور نہ ٹیکنالوجی کے منصوبے چلاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر ناکامی کا بوجھ انہی پر ڈالنا بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ملک ترقی نہیں کر رہا تو جواب ان سے مانگا جانا چاہیے جو اختیار، بجٹ اور وسائل کے مالک ہیں۔
مدارس کی خدمات، قربانیاں اور اخلاقی بنیادیں اپنی جگہ مضبوط ہیں۔ ملک کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب سوال اصل ذمہ داروں سے کیے جائیں، نہ کہ ان اداروں سے جو اپنی طاقت اور وسائل سے کہیں بڑھ کر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مدارس آج بھی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ قومی ترقی کے لیے مدارس پر الزام نہیں، بلکہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سنجیدہ اور دیانت دارانہ توجہ درکار ہے۔ مدارس نے اپنا حصہ ادا کیا ہے اور یہ حصہ صرف تعلیم نہیں، بلکہ قوم کے اخلاقی اور روحانی مستقبل کی مضبوط بنیاد بھی ہے۔

