Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Rishte Mat Toren

Rishte Mat Toren

رشتے مت توڑیں

دنیا کے کئی ممالک میں ایسے واقعات بڑھتے جارہے ہیں جہاں مرنے کے بعد لوگوں کی لاشیں کئی کئی دنوں بعد ملی رہی ہیں۔ ہمارے معاشرئے میں بھی وہی کیفیت جنم لے رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں لوگ جسمانی طور پر نہیں بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر تنہائی کے ہاتھوں تو پہلے ہی مرچکے ہوتے ہیں بس مرنے کی رسم باقی رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرح کے چند درد ناک واقعات سامنے آچکے ہیں جہاں لوگوں کی موت کا پتہ کئی کئی ماہ بعد چلا۔ ہمیں شاید احساس نہیں مگر کسی کو ایک بار فون کر دینے، دروازے پر دستک دینے یا صرف "کیسے ہو؟" پوچھ لینے سے کئی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ رشتوں کو سانس لینے کے لیے محبت کی ہوا چاہیے اور محبت تب ہی پلتی ہے جب انسان تھوڑا وقت بانٹے۔

کراچی میں ایک نوجوان اداکارہ کی ڈیڈ باڈی ان کے فلیٹ سے کئی ماہ بعد دریافت ہوئی۔ کراچی ہی میں ایک بزرگ خاتون تھیں جن کی لاش ان کے فلیٹ سے چند دن بعد دریافت ہوئی۔ وہ طویل عرصے سے اکیلی رہتی تھیں اور ان کی موت کا اندازہ پڑوسیوں یا اہل خانہ کو نہیں ہوسکا جب تک بدبو نہ شروع ہوئی۔ کراچی ہی میں ایک اور بزرگ شہری جو برسوں سے تنہا رہ رہے تھے ان کی لاش بھی تین ماہ بعد دریافت ہوئی اس دوران کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ مر چکے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات میں جو منظر عام پر آچکے ناجانے کتنی ایسی داستانیں چپ چاپ ہی گزر جاتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ جاپان میں ہر سال تیس ہزار سے زیادہ بوڑھے لوگ اپنے گھروں میں اکیلے ہی مر جاتے ہیں اور ان کی لاشیں کئی کئی مہینے پڑی رہتی ہیں جب تک کہ کسی کو ان کی موت کا پتہ نہیں چلتا۔ بوڑھے لوگوں کا یوں تنہا مر جانا بغیر گھر والوں کے اور بغیر کسی پوچھنے والے کے ایک عام بات بن چکی ہے اور اسے وہاں کوڈو کشی یعنی "اکیلے مر جانا کہا جاتا ہے"۔

ایک بہت دکھ دینے والی کہانی اوساکا کے ایک بوڑھے آدمی کی ہے جس کی عمر اکانوے برس تھی وہ چل پھر نہیں سکتا تھا اس کی بیوی ہی اس کی دیکھ بھال کرتی تھی لیکن جب بیوی مر گئی تو وہ بھی بے سہارے بھوکے مر گیا دونوں کی لاشیں سڑتی رہیں اور کئی ہفتوں بعد پڑوسیوں کو بدبو آئی تو پتہ چلا کہ وہ دنیا سے جا چکے ہیں کا بیٹا بہت پہلے اپنے شہر سے جا چکا تھا اور نہ اسے فون کرنے کی توفیق ہوئی نہ ماں باپ کی موت اور جنازے کی کوئی فکر ہوئی۔ اب اندازہ ہوا کہ رشتے توڑنا کتنا بڑا گناہ ہے اوپر والا صاف صاف کہتا ہے کہ جو لوگ رشتے توڑتے ہیں ان کے دل اندھے ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی سے برکت اٹھ جاتی ہے انسان جب رشتے توڑ دیتا ہے تو اس کے دل کی روشنی بجھ جاتی ہے اور گھر سے برکت اڑ جاتی ہے اور زندگی کے سارے راستے بھاری محسوس ہونے لگتے ہیں کیونکہ جو لوگ اپنے ہی خون کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں وہ آخر میں خود بھی تنہا رہ جاتے ہیں۔

گھروں میں بڑھتی ہوئی خاموشیاں اور انسانی رشتوں کے درمیان لمبی مسافتیں یہی ہمارے عہد کی سب سے المناک کہانی ہے۔ کبھی ایک گھر میں کئی نسلیں رہتی تھیں، دکھ سکھ بانٹتی تھیں، مگر اب ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد بھی ایک دوسرےسے اجنبی ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں موبائل کی اسکرینیں تو روشن ہیں مگر گھروں کے دل اندھیرے میں ڈوب رہے ہیں۔ جہاں آن لائن رہنا آسان ہے مگر ایک دوسرےکے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اسی تنہائی نے نہ صرف احساسات بلکہ زندگی تک کو گہرا نقصان پہنچایا ہے۔ اب لوگ زندہ رہتے ہوئے بھی تنہا ہیں اور مرتے ہوئے بھی تنہا دکھائی دیتے ہیں۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ بوڑھا والد جو چپ چاپ کمرئے کے کونے میں بیٹھا ہے وہ دراصل زندہ لاش نہیں بلکہ بےبسی کے بوجھ تلے دبے انسان کی آخری سانسیں ہیں؟ وہ ماں جو ساری عمر دعاوں کے سائے بانٹتی رہی بڑھاپے میں اسی گھر میں اجنبی ہوگئی ہے جہاں کبھی اس کی آواز سے رونق ہوا کرتی تھی۔ محلے والے، رشتے دار اور دوست سب مصروف اور اتنے مصروف کہ کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارئے آس پاس کوئی خاموشی سے مر رہا ہے۔ تنہائی اب بیماری نہیں رہی ایک وبا بن کر رہ گئی ہے۔ تنہائی کے مارے بعض لوگ بستر پر، بعض ہسپتال میں او ر بعض تو اپنے دل کے اندر ہی مر جاتے ہیں اور ان کی موت کا سبب دل کا دورہ نہیں بلکہ رشتوں کی دوری ہوتی ہے۔

مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو گذشتہ دنوں فیس بک پر کسی نے شئیر کیاتھا کہ ایک اخبار فروش گھر گھر اخبار پہنچاتا تھا ایک دن اسے پتہ چلا کہ ایک گھر کا لیٹر بکس بند ہے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بزرگ شخص نے آہستگی سے دروازہ کھولا۔ اخبار فروش نے پوچھا کہ جناب آپ نے اپنا لیٹر بکس کیوں بند کر رکھا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ "میں نے جان بوجھ کر اسے بند کیا ہے" اور مسکراتے ہوےکہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم روزآنہ میرا دروازہ کھٹکھٹا کر یا گھنٹی بجا کر مجھے ذاتی طور پر اخبار دو۔ اخبار فروش کو حیرت ہوئی اس نے کہا کہ اس طرح تو ہم دونوں کو تکلیف ہوگی اور وقت کا ضیاع ہوگا۔ تو اس نے کہا کوئی بات نہیں میں تمہیں ہر ماہ دروزاہ کھٹکھٹانے کی فیس الگ سے دونگا۔ پھر اس نے التجا بھری نظروں سے کہا کہ اگر کبھی تمہیں دورازہ کھٹکھٹانے پر جواب نہ ملے تو براہ کرم پولیس کو اطلاع دینا۔ بزرگ کی درخواست سن کر اخبار فروش چونکا اور پوچھا کہ کیوں جناب؟ تو اس نے بتایا کہ میری بیوی انتقال کرچکی ہے، میں بیمار ہوں اور میرا بیٹا ملک سے باہر ہے اور میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ کون جانے کب میری موت آجائے۔

اس لمحے اخبار فروش نے بوڑھے آدمی کی آنکھوں میں دھندلاہٹ اور نمی محسوس کی اور پھر وہ بوڑھا کہنے لگا کہ میں اخبار کبھی نہیں پڑھتا میں تو اخبار صرف اس لیے خریدتا ہوں تاکہ دروازہ کھٹکھٹانے یا گھنٹی کی آواز دن میں ایک بار تو سن سکوں اور ایک مانوس چہرہ دیکھ سکوں تاکہ کچھ لمحے خوشی کے گزار سکوں۔ پھر اس بوڑھے نے ہاتھ جوڑے اور کہا "بیٹا براہ کرم ایک احسان اور کرو۔ یہ میرے ملک سے باہر بیٹے کا نمبر محفوظ کر لو اگر کسی دن میں دروازہ نہ کھولوں تو براہ کرم میرے بیٹے کو بھی اطلاع دے دینا۔ کبھی کبھی آپ سوچتے ہوں گے کہ لوگ صبح صبح آپ کو واٹس ایپ پر کیوں پیغام بھجتے رہتے ہیں۔ حقیقت میں ان کی صبح کی سلام دعا بالکل اسی طرح ہے جیسے دروازے پر گھنٹی کا بج اٹھنا۔ یہ ایک طریقہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی خریت معلوم کریں اور اپنے پیار کا اظہار کریں۔ ایک دن اگر آپ کو ان کا صبح کا پیغام نہ آئے تو ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھیک نہ ہوں یا ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو چکا ہو۔ (منقول)

خدارا رشتے اور تعلق مت توڑیں یہی تو زندگی ہوتے ہیں۔ ایک دانشور لکھتا ہے کہ ایک دوسرے سے پیار کریں کیونکہ جدائی کبھی وارننگ نہیں دیتی۔ ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے رہیں۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ آخری کال یا ملاقات کب ہوگی۔ ایک دوسرے کا ساتھ برداشت کریں اور ہاتھ تھامے رہیں کیونکہ لفظ "کاش"جانے والے کو واپس نہیں لاسکتا اور یاد رکھیں کہ زندگی میں کہا یا بولا ایک مہربان سا لفظ کسی مردے کی پیشانی پر بوسے دینے سےلاکھ درجہ بہتر ہے۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے چچا سعید خان کا آخری دیدار نہ کرسکا اور پھر تیسرے دن پہنچ سکا تو میرے ایک چچا جمیل خان مرحوم کہنے لگے یار! زندوں سے ملتے رہا کرو اور انہیں دیکھتے رہا کرو تاکہ آخری دیدار کے لیے نہ بھی پہنچ سکو توکوئی حسرت نہ رہے۔ رشتے خود سے جڑتے نہیں یہ تو زبردستی جوڑنے پڑتے ہیں۔

Check Also

Siasi Surat e Haal Aur Tehreek e Jihad

By Sohrab Naseer