ذہنی صحت‘ ذہن اور جسم کو مصروف رکھنے کیساتھ مشروط
تقریب جیل کی بلندوبالا حفاظتی چار دیواری کے اندر تھی۔ اگر ایک لمحے کو بھول جاتے کہ ہم ڈسٹرکٹ کیمپ جیل لاہور میں سینکڑوں اسیران کے درمیان بیٹھے ہیں تو شاید آپ کو حاضرین محفل کو دیکھ کر گمان بھی نہ ہوتاکہ یہ جیل کا احاطہ ہے۔
ہنستے مسکراتے قیدیوں کے چہرے، مزاحیہ خاکے پیش کرتے ہوئے اپنے مسائل کو ہلکی پھلکی نظموں میں پرو کر جیل حکام کے سامنے پیش کرتے ہوئے مختلف ٹیبلوز اور خاکوں میں ایسی کمال کی اداکاری، کہ گاہے گمان ہوتا ہم کسی تھیٹر میں پیشہ ور اداکاروں کے فن سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
یہ تقریب ذہنی صحت کی اہمیت اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔ پہلی بار جیل میں اس موضوع پر بات چیت کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کیمپ جیل کی واحد خاتون ماہر نفسیات، فاطمہ حسنین اور ان کی ساری ٹیم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں جنہوں نے اس سطح کی شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ مختلف جرائم میں قید کاٹنے والے اسیران کو ان کی سوچ کے شکنجوں سے باہر نکال کر ان سے ٹیبلوز اور خاکے پیش کرنے جیسے تخلیقی کام کروانا تقریب کے منتظمین کی غیر معمولی برداشت کا پتہ دیتا ہے۔
سامنے کچھ 18 سال سے کم عمر قیدی بھی بیٹھے تھے جو ایک لمحے کو توکسی سکول کے میٹرک کے طالب علم دکھائی دیئے۔ زندگی ابھی جن پر کھلی ہی تھی کہ وہ کسی جرم کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ ہماری دوست فرح ہاشمی اور ان کے شوہر قیدی بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے رہائی سکول بنا رکھے ہیں جہاں انہیں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ مقصد اچھا ہے مگر شاید اتنا نتیجہ خیز نہیں۔ کچی عمروں میں جرم کر کے جیل کی ہوا کھانے کے بعد قید سے رہائی پا کر واپس آزاد فضا میں جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی ہنر نہیں ہوتا۔ زندگی گزارنے کی کوئی سمت نہیں ہوتی اور بقول شخصے جیل کی ہوا کھا کر کم عمر قیدی بھی زیادہ خرانٹ ہو کر نکلتے ہیں۔ ظاہر ہے جیل کوئی تربیت گاہ نہیں۔ اب تک جو ڈھانچہ بن چکا ہے اسی کے مطابق جیل انتظامیہ بہترین کام کرتی ہے بلکہ پہلے کی نسبت جیلوں میں کافی کام ہو رہا ہے۔ کھانے پینے کے حالات بہت اچھے ہیں۔
جیل کے قیدیوں اور ان کے کھانے کے بارے میں سوچیں تو ہمیشہ پتلی دال اور روٹیوں کا خیال آتا ہے جس کا ذکر ہم نے اکثر تحریروں میں بھی پڑھا ہو گا مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ جیل میں قیدیوں کے کھانے اور غذائیت کا جیسے دھیان رکھا جاتا ہے اس کی تفصیل ناقابل یقین ہے مگر یہ حقیقت کہ قیدیوں کو ہفتے میں چھ دن میں ایک وقت مرغی کا گوشت دیا جاتا ہے۔ ہر قسم کی سبزیاں اور دالیں پکانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ پروٹین اور غذائیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لوبیا کی دال ہفتے میں ایک دن مینیو کا حصہ ہے۔ چائے کے لیے اچھے برانڈ کا پیکٹوں کا والا دودھ استعمال ہوتا ہے۔ صرف ایک ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں قیدیوں کے کھانے کا سالانہ بجٹ لاکھوں میں ہے۔ اس سارے اہتمام اور بندوبست کی ستائش کے ساتھ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ سارا زور صرف قیدی مجرموں کی غذا پر ہی کیوں دیا جاتا ہے؟ ہزاروں کی تعداد میں صحت مند افرادی قوت موجود ہے تو ان سے کام کیوں نہیں لیا جاتا۔
ہنر سکھانے کے لیے باقاعدہ کلاسوں کا اہتمام ہونا چاہیے۔ تعلیمی بیک گرائونڈ اور رجحان دیکھ کر گروپ بنائے جائیں اس کے مطابق ان سے کام لیا جائے تاکہ صرف بیٹھ کر کھانے کی عادت نہ پڑے۔ کام کرنے کی عادت بھی پڑے۔ کام کرنا وقت کا بہترین مصرف ہوگا۔ ذہن کام میں لگا ہو گا تو شیطان اپنا کارخانہ بنانے سے گریز کرے گا۔ ذہنی صحت کی حفاظت کے لیے سب سے پہلا اور ضروری کام یہ ہے کہ ذہن کو مثبت سرگرمی میں مصروف رکھا جائے۔ زندگی کو ایک سمت دی جائے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اس پر کام ہونا چاہیے۔
اب جبکہ پنجاب حکومت نے جیلوں کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ قیدیوں کو سونے کے گدے رکھنے اور ٹی وی دیکھنے کی سہولت بھی دے دی گئی ہے چلیں اس کو سراہنا چاہیے لیکن حیرت یہ ہے کہ ابھی تک کسی اہل اختیار کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں آئی کہ مجرموں کو ویلے بیٹھا کر کھلانا کیا قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے؟
اتنی افرادی قوت موجود ہے اس سے کام کیوں نہیں لیا جارہا؟ اس پر غور و فکر کرنے اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں صفائی اور مالیوں کے کام یہاں کے اسیران ہی کرتے ہیں مگر میں ایک ایسے جامع پروگرام کی بات کر رہی ہوں جس میں تمام اسیران سے کام لیا جائے۔
پہلے وقتوں میں قیدی دریاں بنایا کرتے تھے۔ ایسی کاٹیج انڈسٹری جیلوں کے احاطے میں ہونی چاہیے جہاں قیدی کام کریں اور ان کی بنائی ہوئی پروڈکٹس مارکیٹ میں سیل ہوں۔ بیکنگ کا یونٹ لگ سکتا ہے۔
لکڑی کے کام کی ورکشاپ بن سکتی ہیں۔ ایسے بے شمار کام ہیں جن میں افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے یہ کام انقلابی تبدیلی لائے گا۔ مجرموں کے لیے جیلوں کو آرام کی جگہیں نہیں بنانا چاہیے۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ دیانت داری اور شرافت سے کام کرنے والا ایک محنت کش پورا دن خود کو مشقت کی بھٹی میں جھونک کر بھی کیا اتنا کما سکتا ہے کہ ہفتے میں چھ دن مرغی کا سالن کھا سکے؟
دیہاڑی دار محنت کش تو سارا خاندان بھی کام کرے تو دو وقت کی دال روٹی اس مہنگائی کے دور میں پوری کرنا ان کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف قیدیوں اور مجرموں کو بٹھا کر بہترین کھانا کھلایا جارہا ہے یہ کھلی ناانصافی ہے۔
اسی طرح دیہاڑی دار محنت مزدوری کر کے خود کو ہلکان کرتا رہے تو بھی مہینے میں ایک بار بھی وہ بکرے کا گوشت کھانے کا تصور نہیں کرسکتا۔ ہاں کسی لنگر خانے پر ہاتھ پھیلا کر روٹی سالن مانگ لے تو اس کی دو چپاتیوں کے ساتھ بکرے کا شوربہ اوربوٹی مل جاتی ہے۔ پناہ گاہوں پر کام کاج نہ کرنے والوں کو بھی اچھا روٹی سالن مل جاتا ہے مگر دیانت دار محنت کش، محنت کر کے بھی کیوں خسارے میں رہتا ہے؟
بات ذہنی صحت کے پروگرام سے شروع ہوئی تھی جس کی شروعات یقینا قابل قدر ہیں۔ ذہنی صحت ذہن کو اور جسم کو مصروف رکھنے کے ساتھ مشروط ہے۔ امید ہے ارباب اختیار اس نہج پر بھی سوچیں گے اور عملی اقدامات کریں گے۔