پنجاب کا تھیٹر
میرا خود جا کے تھیٹر دیکھنے کا تجربہ بہت تھوڑا ہے مگر بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے نہ دیکھے ہوئے کو بھی دکھا رکھا ہے۔ ابھی چند روز پہلے میں پڑھے لکھوں کی محفل میں تھا، الغزالی ٹرسٹ کے برادرم عامر محمود جعفری نے صدارتی ایوارڈ یافتگان انور مسعود، عباس تابش، خالدمسعوداور فاروق عادل کے اعزاز میں برپا کی تھی اور وہاں سٹیج کے لیجنڈ سہیل احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔
سہیل احمد کا خطاب طویل ترین تھا مگر میں نے وہیں زندگی کا مختصر ترین، موثر ترین اور دلچسپ ترین خطاب بھی سنا۔ برادرم فاروق عادل نے صدارتی تمغہ ملنے پر کہا، مجھے ایوارڈ کیسے ملا یہ مجھے علم نہیں اور تقریر کیسے کرتے ہیں یہ مجھے پتا نہیں، اور پھر اپنا وقت باقیوں کو دیتے ہوئے مائیک چھوڑ کے آ گئے۔ سہیل احمد وہاں تھیٹر کی اس حالت کے بارے بتا رہے تھے جس میں ماوں، بہنوں کا اس تفریح کی طرف جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ سٹیج بے ہودہ ڈانسز اور فحش جگتوں کا گڑھ بن کے رہ گیا تھا۔
میں نے اپنے فون پر بہت سارے ڈراموں کے کلپس دیکھے ہیں اور کہنے میں عارنہیں کہ واقعی لچر پن بڑھ گیا ہے اورا س کی روک تھام ضروری ہے سو نگران وزیراطلاعات عامر میر کے ساتھ اس حوالے سے تو کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے سٹیج کے معروف اداکار، بھائیوں کی طرح پیارے طاہر انجم سے پوچھا، اس نے مجھے میرا ایک برسوں پرانا پروگرام یاد کروایا جو اسی موضوع پر تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ سیاسی حکومتیں تو تھیٹر سے فحاشی اور لچر پن ختم نہیں کروا سکیں کیونکہ ہرکسی نہ کسی بااختیار بندے کا کوئی نہ کوئی دوست ہوتا تھا لہٰذا اب اگر یہ کام ہو رہا ہے تو اس کی مخالفت نہیں ہوسکتی۔ سہیل احمد کی باتیں سن کے اور طاہر انجم سے گفتگو کرکے مجھے امانت چن یاد ا ٓ گیا، یار، کیا شاندار بندہ ہے اور کیا شاندار کامیڈی کرتا ہے۔ اس میں شاندار یہ ہے کہ وہ اس کے لئے گندی باتوں کا سہارا نہیں لیتا۔
میرا تھیٹر جس حالت سے گزر رہا ہے کبھی میری فلم بھی اس حالت سے گزری تھی۔ ستر کی دہائی کے بعد فیملی فلمیں بننا بند ہوگئی تھیں۔ فلم سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے گنڈاسے میں ہی نہیں بلکہ ذومعنی پنجابی گانوں میں بھی پھنسی تھی۔ یہی وہ دور تھا جب فیملیز نے سینما گھروں میں جانا بند کر دیا تھا سو جب میں نے ہوش سنبھالا تو میرا سینما بہت گندا تھا، مطلب یہ کہ صرف سکرین پر ہی گھٹیا پن نہیں تھا بلکہ ہال کے اندر بھی صفائی نہیں ہوتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ فلمیں دیکھنے جانے والوں میں میرے رکشے اور ویگنوں کے ڈرائیور بھائی ہی باقی رہ گئے تھے۔
یہ بھی ایک عجیب دور تھا جب ہمارا محنت کش طبقہ سلطان راہی میں خود کو دیکھتا تھا جو چوہدری کے گھر جا کے لاشوں کے لائن لگا دیتا ہے اور چوہدری کی کڑی اٹھا کے لے جاتا ہے۔ فلمیں ان کی محرومیوں کے زخموں پر مرہم رکھتی تھیں۔ ہمارے غریب خود کو سلطان راہی سمجھتے تھے اور ہر پیسے والے کوظالم چوہدری۔ اسی محرومی کوبعد میں ایک سیاستدان نے خوب کیش کروایا جب اس نے اپنے علاوہ سب کو چور اور ڈاکو قرار دیا مگر اب وہ خود اٹک کی جیل میں بند ہے۔ اب تھیٹر دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ دکاندار طبقہ ہے۔ تھیٹر میں جب اچھی یا بری جگت لگتی ہے توا ن کے اندر سے قہقہے نکلتے ہیں جو دن بھر کی تھکاوٹ، غم، دکھ، مسائل اور پریشانیاں اپنے ساتھ نکال کے لے جاتے ہیں۔
اس قابل اعتراض تھیٹر کے ساتھ مقابلے میں عامر میرہیں۔ پنجاب کے نگران وزیراطلاعات، پروفیسر وارث میر کے صاحبزادے، حامد میر جیسے بڑے اینکر اور میرے یونیورسٹی فیلوپیارے دوست عمران میر کے بھائی، وہ ایک بہت ہی باوقار اور پڑھی لکھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں سو وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس پر دلائل بھی رکھتے ہیں مگرعامر میر یقینی طور پر دائیں بازو کے نہیں کہ مولوی ہونے کی وجہ سے تھیٹر پر چڑھ دوڑے ہو۔
وہ بائیں بازو کی ثقافت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان سے باہر بھی سٹیج اور تھیٹر کو اچھی طرح سے دیکھا ہوا ہے تو میں بھلا کیا اچھا لگتا ہوں کہ اگر وہ ذومعنی گندے ڈائیلاگزاور ٹانگیں، سینے اور نجانے کیا کیا پھلا کے کئے جانے والے فحش ڈانسز کو روکنا چاہتے ہیں تو میں ان کی مخالفت کروں۔ وہ اپنے دوستوں کو جو ویڈیوز دکھا رہے ہیں وہ یقینی طور پر انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ وبا الحمراہال تک پہنچ گئی اور جنوبی پنجاب بارے کہا گیا کہ وہاں تو عام دھندا ہے۔
پانچ ہزار کا ریٹ پچاس ہزار کروانے کے لئے بھی سٹیج ہی استعمال ہوتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ خوشبو کا گروپ ہے۔ میں چاہتاہوں کہ عامر میر ان ویڈیوز کو دوستوں کو دکھانے تک محدود نہ رکھیں۔ ان پر باقاعدہ پرچے کروائیں اور ایسا دھندا کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں لیکن مجموعی طور پر تھیٹر کو ہم گھروں میں دیکھے جانے والے ڈراموں یا بچوں کی انٹرٹینمنٹ کے پیمانے میں رکھ کرنہ جانچیں۔ یہ ایک ایڈلٹ انٹرٹینمنٹ، ہے جس کے تقاضے بہرحال مختلف ہوتے ہیں۔ پنجاب کے تھیٹر کی جگت کا مقابلہ ہندوستان جیسے ثفافتی اورفلمی حوالے سے امیرترین ملک کا تھیٹر اور سٹیج بھی نہیں کرسکتا، کراچی کے اردو تھیٹر کی تومیں بات ہی نہیں کرتا۔ تمام تر شہرت اور کامیابی کے باوجود کپل شرما کو بھی ہمارے ہی سٹیج اداکار بلانے پڑتے رہے ہیں۔
اگر آپ پنجاب کے تھیٹر پر رومیو جولیٹ لیول کے پلے دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ دونوں اطراف سے ہی ممکن نہیں ہے کہ نہ اسے کوئی پیش کرنے والا ہے اور نہ اسے کوئی دیکھنے والا ہے۔ ہمیں اس کے لئے علیحدہ تھیٹر اور علیحدہ آڈیئنس درکار ہوگی۔ مجھے تھیٹر کے سکرپٹ کو محکموں میں بیٹھے ہوئے کلرکوں یا سرکاری ادیبوں کے چنگل میں پھنسانے پر بھی اعتراض ہے۔ میں آپ کوپورے یقین سے بتاتا ہوں کہ اس وقت ہماری فلمیں بھی وہی کامیاب ہورہی ہیں اور انہی کے سیکوئل آ رہے ہیں جو تھیٹر کی جگت کے ساتھ بن رہی ہیں جن کو سن کر عوام کے ہاسے نکل جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مولاجٹ کامیاب ہوئی ہے تو اس میں ایک ڈائیلاگ ٹن ٹنا ٹن ٹنا ٹن۔۔ کیا ہے؟
میں پھر کہوں گا کہ ہمیں تھیٹر کو فحاشی اور جسم فروشی کا مرکز نہیں بنانا مگر تھیٹر بہرحال جوان لوگوں کی تفریح ہے۔ مجھے وزیر ثقافت سے اصل درخواست یہ کرنی ہے کہ ہمیں معاملات کو ایک دوسرے کا دشمن اور مخالف بن کے نہیں چلانا، وہ اچھے لوگوں کو اپنی طاقت بنائیں۔ تھیٹر بند ہونے سے بے روزگاری پھیلتی ہے۔ ایک بڑے طبقے کی تفریح کا راستہ رکتا ہے۔ ہم پہلے ہی اپنی فلم اور تھیٹر سمیت پورے ادب کے ساتھ ضیاء الحق کے دور میں ظلم عظیم کر چکے ہیں۔ ہماری تو ایڈورٹائزمنٹ تک کی انڈسٹری نہیں بچی۔ میں ہرگز نہیں چاہوں گا کہ پنجاب کے فنکاراسلام کے نام پر آمر ضیاء الحق اور وارث میر کے صاحبزادے عامر میر کے ادوار کو ایک ہی طرح یاد کریں۔