مہنگی بجلی، حکومت کیا کرے؟
میرے پچھلے کالم پر بہت سارے دوست برہم ہیں، انہیں یہ سننا گوارا ہی نہیں کہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے خوابوں میں گم ہیں کہ کوئی پری آئے اور ان کے گھر کاکا پھینک کر چلی جائے یعنی جو کرنا ہے حکومت نے ہی کرنا ہے، بہرحال، میں نے جو لکھا ابھی تک حالا ت اسی کے مطابق ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے بجلی کے بلوں میں رعائیت دینے کے لئے اجازت مانگی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے نے توقعات کے عین مطابق حکومت سے پوچھ لیا ہے کہ اگر یہاں سے کٹوتی کی گئی تو پھر وصولی کہاں سے ہوگی، اسے متبادل پلان دیا جائے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے مانگی گئی وضاحت کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ناں ہی سمجھی جائے۔
میں پھر اپنی ہی لکھی ہوئی بات دہرا دیتا ہوں کہ کسی بھی حکمران نے اپنی جیب سے نہ کوئی سب سڈی دینی ہے اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام کروانا ہے، یہ سب کچھ عوام کے دئیے ہوئے ٹیکسوں سے ہوگا یا قرضوں سے، یہ آخری شے تو ایسی ہے جس پر ہمیں جواب مل گیا ہے۔
اب ایسی بھی بات نہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرسکتی، حکومت بہت کچھ کرسکتی ہے مثال کے طور پر سب سے پہلے ایک پیغام دے سکتی ہے کہ تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا پوری قوم ایک ساتھ کر رہی ہے اور وہ طاقتور طبقات کو دی ہوئی خصوصی مراعات معاشی بحالی اور قومی خوشحالی تک معطل کر سکتی ہے جیسے انہیں ملنے والی مفت بجلی اور مفت پٹرول۔
میں ہاؤس رینٹ ختم کرنے کا ہرگز مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ اگر اس کے ذریعے سرکاری ملازمین گھروں کے کرائے دیتے ہیں تو انہیں گھروں سے نکال سڑکوں پر نہیں لایا جا سکتا مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر ایک استاد اورایک کلرک اپنی تنخواہ سے بجلی اور پٹرول کے بل ادا کر سکتا ہے تو پھر ایک بڑے بیوروکریٹ اور ایک جج کو بھی کرنے چاہئیں۔ دوسری بدعت سرکاری ملازمین کو ملنے والے خصوصی الاونسز ہیں جن میں سرفہرست اس وقت مختلف صوبوں میں ملنے والا ڈیڑھ سو فیصد تک ایگزیکٹو الاونس ہے۔ مان لیا کہ یہ الاؤنس لینے والے برہمن ہیں اورباقی شودرمگر اس صورتحال میں عوامی غم وغصہ بڑھتا چلا جا رہاہے۔
میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی اضافی مراعات کچھ عرصے کے لئے واپس کرکے اپنی کھالیں اور جانیں بچا سکتے ہیں۔ پنجاب میں یہ ایگزیکٹو الاونس کی یہ بدعت نااہل ترین وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں شروع ہوئی تھی اور چالاک بیوروکریسی کے بڑے بڑے افسروں نے اسے مزیداحمق بناتے ہوئے منظوری کروا لی تھی۔ میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ یہی پیکج شہباز شریف کے سامنے بھی رکھا گیا تھا مگر انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایوان وزیراعلیٰ، گورنر ہاوس، پنجاب اسمبلی، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک سب خصوصی اور اضافی الاونسز ختم ہونے چاہئیں۔ تنخواہیں وہی ہونی چاہئیں جو کہ گریڈوں میں لکھی ہوئی ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے بحران ختم ہوجائے مگر اس سے غریب کے ذلیل، بے بس اور بے چارہ ہونے کا احساس ضرور کم ہوگا کہ کچھ لوگ اس سے لئے ہوئے ٹیکسوں پر عیاشی کر رہے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی یہ پہلی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کے درمیان انصاف سے کام لے، مساوی سلوک کرے۔ واپڈا ملازمین کو بھی کچھ عرصے کے لئے اپنے مفت یونٹس قربانی دینی ہوگی جب تک ان کے ادارے منافعے میں نہ آجائیں۔
حکومت کو دوسرا کام یہ کرنا چاہئے کہ فوری طور پر بجلی چوری کے خلاف ایک ملک گیر مہم شروع کرے۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس وقت چھ سو ارب روپوں کی بجلی چوری کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹھ سو ارب روپے ان اداروں پر خرچ کئے جا رہے ہیں جو خسارے میں ہیں۔ حکومت اگر بڑی ریفارمز شروع کرے تو آسانی سے دو ہزار ارب روپوں تک کی بچت کرسکتی ہے جن کا بڑا حصہ اس وقت چوروں، طاقتوروں اور مافیاوں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کی، ڈسکوز خسارے اور چوری میں سب سے آگے ہیں۔
ہمارے دوست، انجمن تاجران پاکستان کی سپریم کونسل کے چئیرمین نعیم میر کہتے ہیں کہ بجلی چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں اور ان کے بھی جو بجلی چوری کرواتے ہیں۔ اشرف مہتاب کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ملک کے بازار اور واپڈا کے دفاتر، ٹُنڈوں سے بھر جائیں گے۔ مجھے میرے میگزین سیکشن کے ساتھی نے بتایا ہے کہ ان کے علاقے میں دو تین اے سی لگا کے بجلی چوری کرنے کاریٹ بارہ سے پندرہ ہزار روپے ہے جس کے بعد آپ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک کی بجلی چوری کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب لائن مین تبدیل ہو تو اگلے سے معاملہ طے کر لیا جائے اور اگر یہ بھی نہ ہو تو پچھلا میٹر ڈیفالٹ شو کرکے جرمانے سے بچا سکتا ہے۔ سچ بات تویہ ہے کہ نگران حکومت کسی سیاسی حکومت سے بھی کمزور ثابت ہو رہی ہے اور اس نے بجلی چوری کے حوالے سے ابھی تک کسی ایکشن پلان کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے تمام تر اجلاس نشستن گفتن برخواستن کی تفسیر ہی رہے ہیں۔
حکومت کو تیسرا کام یہ کرنا چاہئے کہ فوری طور پر آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرے۔ میں اس دلیل سے اتفاق کرتا ہوں کہ جس بدترین لوڈشیڈنگ میں یہ معاہدے کئے گئے ان قومی اوربین الاقوامی اداروں نے بڑے اور محفوظ پرافٹ مارجن پر ہی آنا تھا مگر مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ معاہدوں پر از سر نو غور بھی ہوسکتا ہے۔
میں نام نہیں لینا چاہتا مگر کئی آئی پی پیز ایسی ہیں جن کے مالکان پاکستان کے سرمایہ دار ہیں۔ ان کے پاس بینکوں سمیت بہت سارے دوسرے ادارے بھی ہیں جو بہت نفعے میں جا رہے ہیں۔ وہ چالیس فیصد تک کے کپے سٹی چارجز اگر کم کر دیں گے تو وہ بھوکے مریں گے اور نہ ہی دیوالیہ ہوں گے مگراس کے لئے شرط حب الوطنی اور خداخوفی کی ہے اگر ان میں موجود ہے۔ اگر ہم اپنے ملک سے تعلق رکھنے والی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے تھوڑی یا زیادہ رعائیت لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہم دوسرے ملکوں کے اداروں سے بھی بات کر سکتے ہیں۔
ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اس وقت بجلی کی پروڈکشن کاسٹ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ گردشی قرضے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ عمران خان جیسے نااہل حکمران کی حکمرانی میں یہ قرضے پانچ سو فیصدتک بڑھ گئے۔ چوتھا اور اہم ترین کام انرجی سیکٹر میں اصلاحات کا ہے۔ یہ درست کہ نگران حکومت بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں کرسکتی مگر وہ ایک بنیاد تو رکھ سکتی ہے، اک راہ تو دکھا سکتی ہے۔ اس وقت تجویز دی جا رہی ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کر دی جائے اور ان کے اکاون فیصد شئیرز صوبوں کے حوالے کر دئیے جائیں تاہم نجکاری پرہمیں دیکھنا ہوگا کہ کراچی میں کے الیکٹرک کا تجربہ کامیاب رہا یا ناکام۔
اس پر بابائے مزدور خورشید احمد کی رائے یہ ہے کہ بجلی، پانی اور گیس بنیادی ضروریات ہیں اور ان کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری۔ اسے ٹھیکیدار کے حوالے نہیں کیا جا سکتا مگر دوسری طرف یہ رائے پختہ ہوجاتی رہی ہے کہ حکومت کا کام محکمے چلانا نہیں بلکہ پالیسیاں دینا اور مانیٹرنگ رکھنا ہے۔ پی آئی اے اور ریلوے ہوں یا واپڈا وغیرہ، ان سب کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ہی چلایا اور قوم کا ہر سال کھربوں روپیہ ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے رابطہ سب سے آخری کام تھا جو حکومت نے سب سے پہلے کر لیا ہے۔