مصنوعی مہنگائی سے نمٹنے کے لیے مصنوعی اقدامات
اس حکومت کو اب تک مصنوعی بحران ہی سانس نہیں لینے دے رہے۔ آج جو مہنگائی کا بحران ہے۔ یہ بھی ایک مصنوعی بحران ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مہنگائی کے اس مصنوعی بحران کی ذمے دار بھی گزشتہ حکومت ہی ہے۔ تاہم وفاقی کابینہ کی جانب سے اس مصنوعی مہنگائی سے نبٹنے کے لیے جو انقلابی اقدامات کیے گئے ہیں وہ بھی کم مصنوعی نہیں ہیں۔
ویسے تو پرانی کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ اسی طرح مصنوعی بحران کو مصنوعی اقدامات سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ حکومت سمجھتی ہے کہ مہنگائی کے مصنوعی بحران کو یوٹیلٹی اسٹورز سے شکست دی جا سکتی ہے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ شائد ہم بھول گئے ہیں کہ یہی یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن ہے جس کو موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد بند کرنا چاہتی تھی۔
وہاں کے ملازمین کو فارغ کرنا چاہتی تھی۔ اسی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملازمین نے اس حکومت کے خلاف پہلا دھرنا دیا تھا۔ جس کے بعد ان کی نوکریوں کو عارضی تحفظ دیا گیا تھا اور یوٹیلیٹی اسٹورز کی نجکاری روک دی گئی تھی۔ کسے تب معلوم تھا کہ یہی یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پندرہ ماہ بعد ملک میں مہنگائی کے مصنوعی بحران سے نبٹنے کے لیے حکومت کا ہراول دستہ بن جائے گی۔ کیا یوٹیلیٹی اسٹورز ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ نہیں ایسا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اتنے سالوں میں یہ ممکن ہو جاتا۔
یوٹیلیٹی اسٹورز پر بے شک چیزیں سستی مہیا ہونگی۔ لیکن یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں ملک بھر کی مانگ پوری کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سارے لوگ یوٹیلیٹی اسٹورز سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ اگر اوپن مارکیٹ میں چیزیں مہنگی رہیں گی تو آپ کب تک اشیائے ضرورت کو یوٹیلیٹی اسٹورز میں سستا فروخت کر سکتے ہیں۔
یہ تو راشن ڈپو والا نظام واپس لانے والی بات ہو گئی۔ حکومتی اقدامات سے ثابت ہو گیا کہ حکومت کے پاس مہنگائی کے اس مصنوعی بحران سے نبٹنے کے لیے کوئی پلان نہیں ہے۔ اب اگر اوپن مارکیٹ میں چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جائیں گی تو یوٹیلیٹی اسٹورز پر کتنی سستی فروخت کی جا سکتی ہیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے قومی اسمبلی میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کی ایک لمبی داستان بیان کی ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی کی پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ عوام کا کیا خیال ہے کہ حکومت کی مہنگائی پالیسی کی ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ حفیظ شیخ بے شک کہہ رہے تھے کہ بجلی قیمتوں میں حکومت بہت سبسڈی دے رہی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام بجلی قیمتوں میں اضافہ سے رو رہے ہیں۔ آٹا اور چینی کا آئی ایم ایف سے کیا تعلق ہے۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آٹا اور چینی کب سے ڈالر سے منسلک ہو گئے ہیں۔ گھی قیمتوں میں کیسے اضافہ ہو گیا ہے اور دالیں کیوں مہنگی ہو گئی ہیں۔ مشیر خزانہ یہ بتا رہے ہیں کہ بھارت سے تجارت بند ہونے کی وجہ سے ملک میں سبزیاں مہنگی ہو گئی ہیں۔ شکر ہے کہ انھوں نے مہنگی سبزیوں کی ذمے داری بھی گزشتہ حکومت پر نہیں ڈال دی۔ کیا یہ جاننا عام آدمی کا حق نہیں کہ جو چیزیں ملک کے اندر بنتی ہیں آئی ایم ایف ان کی قیمتوں میں اضافے پر کیوں اصرار کر رہی ہے۔ جس طرح مہنگائی کا موجودہ بحران مصنوعی ہے اسی طرح گزشتہ حکومت نے مصنوعی طریقہ سے ڈالر کو مستحکم رکھا ہوا تھا۔ جس کا پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے ڈالر کے مصنوعی استحکام کو ختم کرنے میں حکومت کو بہت محنت کرنا پڑی۔ بہت محنت سے ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا گیا۔
اس ضمن میں وزیر اعظم کو اپنی ٹیم کو خصوصی خراج تحسین پیش کرنا پڑا کیونکہ خود وزیر اعظم کو بھی ٹی وی ٹاک شو سے معلوم ہوا کہ ان کی ٹیم نے کمال کامیابی سے ڈالر کے مصنوعی استحکام کو ختم کر دیا ہے۔ یہ کام اتنا مشکل تھا کہ اس کے لیے ہمیں اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی باہر سے درآمد کرنا پڑا۔ کیونکہ ڈر تھا کہ کہیں پرانی حکومت کے کارندے دوبارہ ڈالر کو استحکام نہ بخش دیں۔ حکومت کو ترقی شرح بھی مصنوعی ملی تھی۔ اسی لیے جس طرح ڈالر کی قدر مصنوعی رکھی گئی تھی اسی طرح گزشتہ حکومتوں میں ترقی کی شرح بھی مصنوعی رکھی گئی تھی۔
حکومت نے ترقی کی اس مصنوعی شرح کو ڈالر کی طرز پر اس کی اصل شرح پر بحال کرنے کے لیے انقلابی اقدام کیے ہیں۔ اسی لیے ترقی کی شرح کو کم کر کے 1.2فیصد پر لایا گیا۔ حکومت نے یہ کام بہت محنت سے کیا ہے۔
مشیر خزانہ قومی اسمبلی میں جب یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان نے برآمدات میں ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا تب یہ بتانا بھول گئے کہ بنگلہ دیش بھارت افغانستان میں ترقی کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کو یہ بتانا بھول گئے کہ ترقی کی شرح کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے بعد ملک میں جتنے لوگ فالتو روزگار پر لگ گئے تھے انھیں روزگار سے ہٹا دیا گیا ہے۔ صرف بے نظیر انکم سپورٹ سے ہی نو لاکھ فراڈیوں کو نہیں نکالا گیا بلکہ ہر شعبہ میں ڈاؤن سائزنگ کی گئی ہے تا کہ جو لوگ روزگار پر غلط طریقے سے لگ گئے تھے ان کی نوکریاں ختم کی جا سکیں۔ حکومت کی اس کاوش کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔
پہلے سال میں دس لاکھ بے روزگار ہوئے ہیں اور اب اس سال بارہ لاکھ لوگ مزید بے روزگار ہونگے۔ ان سب لوگوں کو گزشتہ حکومت نے غلط طریقہ سے روزگار دلوایا تھا۔ اس لیے ان کا روزگار ختم کرنا ملکی مفاد کے لیے ناگزیر تھا۔ اسی طرح گزشتہ حکومت نے مصنوعی طریقہ سے شرح سوچ کو نیچے رکھا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ بہت مال بنا رہا تھا۔ حفیظ شیخ صاحب جب قومی اسمبلی میں اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کی حب الوطنی کی قسم کھا رہے تھے تب ان کو بتانا چاہیے تھا کہ رضا باقر نے آئی ایم ایف کی نوکری چھوڑنے کے بعد جب سے اسٹیٹ بینک کی گورنری سنبھالی ہے تب سے شرح سود کو اس کی اصل شرح پر بحال کر دیا ہے۔
انھوں نے گزشتہ حکومت کی کم شرح سود رکھنے کی پالیسی کو یکسر ختم کرتے ہوئے شرح سود میں ریکارڈ اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے ملک کا کاروباری طبقہ بہت خوش ہے۔ اپوزیشن کو تو الزام لگانے کے سوا کوئی کام نہیں ہے۔ ورنہ رضا باقر کے اقدامات سے آئی ایم ایف بھی تنگ ہے اور انھوں نے مطالبہ کر دیا ہے کہ رضا باقر کو ہٹا کر ہمارا بندہ اسٹیٹ بینک کا گورنر لگایا جائے۔ بہرحال ملک میں مہنگائی کا مصنوعی بحران جاری ہے۔ اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
حکومتی اقدامات سے بات صاف ظاہر ہے کہ مہنگائی کو اس کی اصل شرح پر بحال کرنے کے لیے دن رات محنت کی جا رہی ہے۔ اس لیے عوام کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی مزید مہنگائی ہو گی اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ حکومت کے رویہ سے صاف نظرآرہا ہے کہ ابھی مکمل مہنگائی نہیں ہوئی ہے۔