Zehni Mareez
ذہنی مریض

ایک وقت تھا اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ مس جناح کو غدار قرار دیا تھا کیونکہ ان کے مقابل جنرل ایوب خان محب وطن تھے۔ پھر ہم نے دیکھا محترمہ بینظیر بھٹو "سیکیورٹی رسک" قرار پائیں۔ بات نواز شریف تک آتے آتے بڑھ کر "ریجیکٹڈ" تک پہنچ گئی تھی۔ ایک منتخب وزیراعظم کے حکم کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے "ریجیکٹڈ" ٹویٹ کرکے مسترد کر دیا۔ آج عمران خان کو "ذہنی مریض" قرار دے دیا گیا ہے۔ افسوس یہ ہوتا ہے ایسے روئیے اور القابات کسی سیاسی جنونی لونڈے لپاڑے کے نہیں۔ ایک اہم ادارے کے ترجمان ادارے کی جانب سے ہیں۔
عمران خان میں سو خامیاں ہیں اور ان کے بہت ناقدین موجود ہیں۔ ہم خود خان صاحب کے مشتعل رویوں اور ان کے بلنڈرز کے ناقد ہیں لیکن فوج کے ترجمان ادارے کو یہ حق کونسا آئین دیتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی لیڈر کو کچھ بھی قرار دے دے۔ کیا یہ سیاسی ادارہ ہے۔ جب کہا جائے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تب بھی حضور کو اعتراض ہوتا ہے اور قوم کو بارہا بتانے آتے ہیں ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
ڈی جی صاحب نے مزید کہا ہے عمران خان قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ اچھا تو یہ کون بتائے گا عمران خان قومی سلامتی کے لیے تب بھی خطرہ تھا جب آپ کا ادارہ ان کی دستار بندی اور کریکٹر بلڈنگ کر رہا تھا یا تب سب ٹھیک تھا اور پھر عمران خان قومی سلامتی کے لیے خطرہ کیوں بن گیا جب کہ آپ قومی سلامتی کے محافظ ہیں۔ کیا یہ آپ کا قصور ہے؟ کیا آپ ذمہ دار نہیں؟ عمران خان صاحب کے فوج مخالف بیانئیے، ان کے اشتعال انگیز پیغامات یا بیانات کی جن بنیادوں پر مذمت کرتا رہا ہوں انہی بنیاد پر آپ کے فرمان کی بھی مذمت کروں گا۔ یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ آج جو لوگ اس پریس کانفرنس کو خوشیاں مناتے انجوائے کر رہے ہیں وہ یہ بھی سوچ رکھیں کل کو نوازشریف یا زرداری صاحب یا ان کی آل اولاد کو بھی یہ کوئی لقب دے سکتے ہیں۔ ٹیبل ٹرن ہوتے پتہ نہیں چلتا۔ جانے کب بادشاہ کا موڈ بدل جائے یا مزاج بدک جائے۔
اس ملک کو دو انتہاؤں کا سامنا ہے۔ ایک طرف کلٹ سوچ اور اپروچ ہے جس کے سوشل میڈیا گالی گلوچ بریگیڈ کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ نامی مگرمچھ نے اس نظام کو اپنے جبڑوں میں داب رکھا ہے۔ سارا سماج انتہاپسندی کا شکار ہے۔ عوام مر رہے ہیں۔ سسک رہے ہیں۔ زخمی ہو رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت کو تو کبھی آنجناب کچھ لقب دے دیں تو کبھی کچھ لیکن اسی سیاسی قیادت کی سرپرستی کرنے والے سابقہ جرنیلوں کے واسطے کوئی مناسب لقب بھی ان کے دہن مبارک سے نہ نکل پائے۔ اگر ساری ذمہ داری سیاسی قیادت کی ہے تو جس اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں یہ قیادت اقتدار میں آتی جاتی ہے ان پر کوئی ذمہ داری فکس نہیں؟ طاقت کا مرکز تو جناب عالی آپ ہیں۔
ویسے اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ وطن عزیز کے موجودہ حالات کا ذمہ دار کون ہے تو وللہ میں صاف کہہ دوں اس ملک کے عوام۔ یہ عوام ہی ہیں جو پانامہ کیس میں نوازشریف کی رخصتی پر جشن منا رہے تھے۔ جو آج عمران خان کو ذہنی مریض قرار دینے پر جشن منا رہے ہیں۔ آج تک عوام نے یکذباں ہو کر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ تو پھر یہی ہوگا جو ہو رہا اور ہوتا آیا ہے۔ مستقبل مزید آہنی ہے۔ ہم سب اس ملک کے باشندے دو انتہاؤں کو بھگت رہے ہیں۔ دونوں طرف سے کچلے جا رہے ہیں۔

