Press Conference Ya PsyOps?
پریس کانفرنس یا سائی آپس؟

ایک انتہائی مربوط حکمت عملی کی حامل، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور ٹاپ پروفیشنل فوجوں میں شمار ہونے والی پاکستان آرمی کی تزویراتی فوج (Strategic Force) کے ترجمان کی جانب سے ایک ایسی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس نے ہر سنجیدہ مبصر کو حیران کر دیا۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی اور جذباتی پریس کانفرنس تھی جس میں مولا جٹ اسٹائل کا مکالمہ ہوا اور ایک باوقار ادارہ اپنے بین الاقوامی ڈیکورم کو چھوڑ کر ایک سیاسی قوت کے ساتھ براہ راست گالی گلوچ پر اتر آیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں میری بھنویں چڑھیں کہ "سلیمی، دال میں کچھ کالا ہے"، کیونکہ میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ ایک تزویراتی فوج (Strategic Force) کا ترجمان بے بونگی باتیں نہیں کر سکتا۔
یہ غیر معمولی رویہ اپنے اندر ایک واضح ابلاغی تضاد (Communicational Paradox) لیے ہوئے تھا۔ ایک طرف فوجی ڈاکٹرائن اور نفسیاتی آپریشنز (PsyOps) کی صلاحیتیں ہیں جن کا مقصد ٹھوس معلوماتی جنگ (Information Warfare) کے ذریعے بیانیے کو کنٹرول کرنا ہے، دوسری طرف، ہم نے ایک ایسی جذباتی پریس کانفرنس دیکھی جہاں جذباتیت اس قدر حاوی تھی کہ تمام بڑے صحافی اور اینکر تک منہ لٹکائے اور پیٹ کے مروڑ جیسی کیفیات میں بیٹھے تھے۔ تاہم، اگر کوئی شخص تمام تر جذباتی باتوں کے باوجود اپنی باڈی لینگویج میں انتہائی مطمئن تھا، تو وہ خود جنرل شریف صاحب تھے۔ یہ تضاد ثابت کرتا ہے کہ ظاہری ابلاغ کچھ اور تھا اور پس پردہ محرکات کچھ اور۔
"پاکستان آرمی اپنی فوجی حکمت عملی (Military Doctrine) کے ایک لازمی جزو کے طور پر نفسیاتی آپریشنز (Psychological Operations - PsyOps) کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔ ہائبرڈ اور معلوماتی جنگ کے جدید دور میں، یہ صلاحیتیں عوامی رائے، دشمن فوجیوں کے حوصلے اور اندرونی سیکیورٹی کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ آپریشنز معلوماتی جنگ (Information Warfare) کے ذریعے بیانیہ سازی (Narrative Building)، پروپیگنڈہ اور دشمن کے بیانیے کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر، نفسیاتی آپریشنز انسدادِ بغاوت (Counterinsurgency) کی کوششوں، جیسے کہ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد میں مقامی آبادی کا اعتماد حاصل کرنے اور شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ڈومین کو بین الاقوامی سطح پر قومی مفادات کے حق میں تاثر قائم کرنے اور گمراہ کن معلومات (Disinformation) کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کلیدی ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا (Rauf، S. 2020; Hashmi، M. I. 2018)"۔
میرا پہلا گمان یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس دراصل موجودہ سیاسی سسٹم کو دی جانے والی ایک سخت وارننگ تھی، جو شاید اب ضرورت سے زیادہ ڈیمانڈ کرنے لگا تھا۔ یہ پنجابی کی اس مثال کے عین مطابق تھا کہ "بیٹی تم بات سنو تاکہ میں بہو کو سنا سکوں"۔ یہ ایک بالواسطہ پیغام رسانی تھی، جہاں اونچی آواز میں دیا گیا جذباتی بیانیہ اصل میں سسٹم کے ان پوشیدہ عناصر کو ان کی حدود یاد دلا رہا تھا جو حد سے تجاوز کر چکے ہیں۔
دوسرا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان آرمی اسلامی فوج کا ایک درخشاں باب ہے اور یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اسلام کی اولین ترویج اور جلد پھیلاؤ نبی کریم ﷺ پر الزام تراشی اور بہتان طرازی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی ادارہ کسی قابو آئے شخص کو دوبارہ عوام کے دلوں میں زندہ کرنے کا خطرہ مول لے۔ اگر کوئی ادارہ کسی شخص کو ختم کرنا چاہے تو وہ اسے نظرانداز کرتا ہے، نہ کہ جذباتی تنقید کا مرکز بنا کر اس کے مظلوم بیانیے کو تقویت دے۔ لہٰذا، یہ بہترین طریقہ ہے کہ اس کا نام لیے بغیر اسے دوبارہ عوامی جذبات کا محور بنا دیا جائے۔ یہ مکمل طور پر عالمی سیاست اور ایک پیچیدہ نفسیاتی جنگ (PsyOps) کا حصہ تھا، جس نے نہایت کامیابی سے اس شخص کو دوبارہ لائم لائٹ میں لا کر سیاسی ماحول کو اپنے ایجنڈے کے مطابق موڑ دیا۔
میرا یقین ہے کہ ایک ایسا ادارہ جس میں کوئی کام بھی اعلیٰ قیادت کی مشاورت اور ہم آہنگی کے بغیر نہیں ہوتا، وہاں یہ جذباتی پریس کانفرنس، جو پوری دنیا کے میڈیا کی سرخی بنی، محض ایک غلطی نہیں ہو سکتی۔ فوج جیسا ادارہ دشمن بناتا نہیں، اچھالتا نہیں، بلکہ ختم کرتا ہے۔ کسی فرد یا قوت کو عوامی سطح پر اچھالنا صرف اس صورت میں ایک Strategic Move ہو سکتا ہے جب اس کے پیچھے کوئی بڑا مقصد ہو۔ اس ابلاغی تضاد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، ادارے نے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کیے۔
لہٰذا، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی سیاست میں فوج نے کسی اہم سیاسی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا ہے، جس میں بہت مناسب جگہ ذہنی مریض اور اس کی پارٹی کو دئے جانے کا امکان ہے اور یہ بات شاید موجودہ سیاسی قیادت جان چکی ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

