Dilution Refrigerators, Science Ki Sab Se Sard Dunya
ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر، سائنس کی سب سے سرد دنیا

دنیا کی تمام دریافتیں انسان کی ایک بے قراری سے جنم لیتی ہیں: "اگر ہم مزید گہرائی میں جھانکیں تو کیا دیکھیں گے؟" کبھی خلا کی وسعتوں کی طرف نگاہ گئی، کبھی سمندر کی تہہ کی طرف اور کبھی مادّے کے اندر چھپے اس لطیف ترین راز کی طرف جسے ہم "کوانٹم" کہتے ہیں۔ آج کی جدید سائنس اسی کوانٹم دنیا کے دروازے کھولنے پر تُلی ہوئی ہے اور اس کوشش میں ایک حیرت انگیز آلہ وجود میں آیا۔ ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر۔ نام بظاہر خشک، سادہ اور لاطینی سا لگتا ہے، مگر اس کے اندر کائنات کی سب سے خاموش اور سب سے سرد دنیا آباد ہے۔
یہ ایسا ریفریجریٹر ہے جو ٹھنڈک کے تمام تصورات بدل دیتا ہے۔ فریج، فریزر، برف، لکوئیڈ نائٹروجن۔ سب ایک طرف اور یہ اپنی خاموش سانسوں سے ٹمپریچر کو صفرِ مطلق کے اتنا قریب لے آتا ہے کہ مادّے کے اندر چھپے قوانین کی زبان گویا سنائی دینے لگتی ہے۔ انسانی ذہن کے لیے یہ سمجھ پانا مشکل ہے کہ صفرِ مطلق کا مطلب کیا ہے۔ یہ وہ حد ہے جہاں حرارت کا مکمل اختتام ہو جاتا ہے، جہاں ایٹموں کی حرکت بے حد سست ہو جاتی ہے۔ اس کے قریب پہنچنے کا مطلب ہے وہ حقیقت دیکھنا جو عام حالات میں نظر ہی نہیں آتی۔ ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر اسی سرحد کو چھوتا ہے اور یہ سائنسی تاریخ کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا آلہ بنانا کیوں ضروری تھا؟ کیا انسان کو واقعی منجمد ہوتے ہوئے مادّے میں کوئی راز نظر آ سکتا ہے؟ جواب ہے۔ ہاں اور بہت اہم۔ جب ٹمپریچر کو 0.002 کیلوون تک لایا جاتا ہے، یعنی منفی 273.15 ڈگری سینٹی گریڈ سے صرف چند ہزارویں حصے کا فرق رہ جاتا ہے، تو مادّہ عام مادّہ نہیں رہتا۔ دھاتیں برقی مزاحمت چھوڑ دیتی ہیں، سپر کنڈکٹر بن جاتی ہیں جن میں بجلی بغیر رکاوٹ کے بہتی ہے۔ کچھ مٹیریلز عجیب و غریب فیز اختیار کرتے ہیں جنہیں "کوانٹم فیز" کہا جاتا ہے۔ ایسے فیز جن میں برقی چارج گویا رقص کرتا ہے، الیکٹران ایک دوسرے سے ایسی گفتگو کرتے ہیں جو عام درجہِ حرارت پر ناممکن ہوتی ہے۔ یہی وہ دنیا ہے جہاں آج کے سائنس دان کوانٹم کمپیوٹرز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹر کوئی عام کمپیوٹر نہیں ہوتا، یہ چند سیکنڈ میں وہ کام کر سکتا ہے جو آج کے سپر کمپیوٹرز ہزاروں سال میں بھی حل نہ کر سکیں۔ مگر اس کے "کیوبِٹس" انتہائی نازک ہوتے ہیں، درجہ حرارت ذرا سا بلند ہو تو یہ خراب ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر کوانٹم سائنس کا دل بن چکا ہے، ایک ایسی مشین جو خاموشی سے سب سے ٹھنڈا ماحول بناتی ہے تاکہ سب سے گرم سوالوں کے جواب مل سکیں۔
یہ آلہ کیسے کام کرتا ہے، اس کی کہانی بھی کم دلکش نہیں۔ روشنی، آواز اور برف سے دور، یہاں ٹھنڈک ایک عجیب ملاپ سے بنتی ہے۔ دو گیسیں، ہیلیم 3 اور ہیلیم 4، جو قریب ترین رشتہ دار بھی ہیں اور اجنبی بھی، اس عمل کی بنیاد ہیں۔ جب درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے تو یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے میں پوری طرح نہیں ملتیں، کچھ ویسے جیسے آئل اور پانی ایک دوسرے میں گھل کر یکجان نہیں ہوتے۔ یہی "نہ ملنے" کا عمل ڈائیلیوشن کہلاتا ہے۔ جب ہیلیم 3، کم درجہ حرارت پر ہیلیم 4 میں ملنا شروع ہوتا ہے تو یہ عمل ماحول سے حرارت کو کھینچ لیتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے کوئی سایہ گرمی کو کھا جائے۔ یہ "حرارت کھینچنے" کا عمل اتنا طاقتور ہے کہ مشین کو صفرِ مطلق کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ یہ آلہ دراصل مختلف حصوں پر مشتمل ایک لمبی، پیچیدہ کولنگ ٹاور کی طرح ہوتا ہے، جس میں پائپ، مکسنگ چیمبرز، پریشر کنٹرولر اور مائع ہیلیم کے ٹینک ایک انتہائی نفیس نظام میں جڑے ہوتے ہیں۔ اس کا ہر قدم سکون اور سست روی سے بھرا ہوتا ہے، مگر اس سست روی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ فزکس کی دنیا ہل کر رہ جاتی ہے۔
ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر صرف ایک مشین نہیں، علم کی ایک کھڑکی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات کی سب سے بڑی کہانیاں کبھی کبھی سب سے چھوٹے ذرات کی خاموش حرکت میں لکھی ہوتی ہیں۔ یہ وہ آلہ ہے جس نے سائنس دانوں کو سپر کنڈکٹویٹی کے بھید سلجھانے دیے، نئے مٹیریلز کو آزمانے کا موقع دیا اور کوانٹم کمپیوٹنگ کے خواب کو حقیقت کے قریب کر دیا۔ جدید ترین ڈارک میٹر سینسرز، بنیادی فزکس کی تجربہ گاہیں اور سپر سمپل سرکیٹس، سب اسی کی بدولت چلتے ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیاں اور ریسرچ لیبارٹریاں اسے اپنے تحقیقاتی مرکز کا لازمی حصہ بنا چکی ہیں۔ اس کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے، اس کا آپریشن پیچیدہ ہوتا ہے اور اس کی دیکھ بھال میں سائنس دانوں کی پوری ٹیم محنت کرتی ہے۔ مگر اس کا حاصل وہ علم ہے جو کسی اور ذریعے سے نہیں مل سکتا۔ کائنات کی کہانی ہمیشہ انہی لوگوں کو سنائی دیتی ہے جو خاموشی میں سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر اسی خاموشی کا محافظ ہے۔
آخر میں ایک گہرا سوال ہمارے سامنے رہ جاتا ہے، انسان سرد ترین درجہِ حرارت تک کیوں پہنچنا چاہتا ہے؟ شاید اس لیے کہ حرارت کے شور سے دور، ہر شے کی اصل فطرت ظاہر ہو جاتی ہے۔ جب ایٹم خاموش ہو جائیں تو ان کی موجودگی کا سب سے خالص رنگ سامنے آتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں قوانین بدلتے نہیں بلکہ حقیقی روپ میں جھلکتے ہیں۔ ڈائیلیوشن ریفریجیریٹر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں اور ٹھنڈ کے ان گہرے جہانوں میں بھی زندگی کے مشاہدات چھپے ہوئے ہیں۔ انسان نے آگ دریافت کی تھی تو وہ گرمائش سے روشنی کی طرف بڑھا تھا، اب وہ ٹھنڈک کی انتہا پر کھڑا ہے اور وہاں اسے کائنات کے نئے دروازے کھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ آلہ شاید مشین ہی سہی، مگر علم کے افق میں یہ ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیرے نہیں بلکہ سرد خاموشی میں روشنی پھیلاتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کائنات کا ہر درجہ حرارت اپنے اندر ایک نیا سبق، ایک نیا راز اور ایک نیا امکان رکھتا ہے۔ انسان صرف گرم آگ کے ذریعے نہیں، بلکہ سرد خاموشی کی تہوں میں بھی کائنات کو پڑھ رہا ہے اور یہی اس کی اصل عظمت ہے۔

