شام پھر سے سانس لے رہا ہے

آٹھ دسمبر کو شام میں بشار الاسد کی خاندانی آمریت کے زوال کا ایک برس مکمل ہوگیا۔ مگر ملک کا طول و عرض آج بھی چودہ برس تک جاری خانہ جنگی سے شدید زخمی ہے اور ہر طرح کی دیدہ و نادیدہ رکاوٹوں کے درمیان زندہ رہنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ ماضی میں القاعدہ سے منسلک سابق ملیشیا حیات التحریر السلام کے کمانڈر ابو محمد الجولانی اس وقت احمد الشرح کے نام سے ملک کے صدر ہیں۔
کہاں سال بھر پہلے تک امریکا نے احمد الشرح کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا اور کہاں اب القاعدہ اور داعش والے انھیں ملحد و غدار اور مغرب کا کاسہ لیس سمجھ کر ان کے خون کے پیاسے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل احمد الشرح کو ایک زخمی ملک مجتمع رکھنے کے لیے گھڑی بھر کی مہلت دینے کو بھی تیار نہیں۔ کوئی اچھی خبر ہے تو یہ کہ اس ایک برس میں امریکا اور یورپی یونین نے سعودی عرب کی کوششوں سے نئی حکومت کو قبول کرکے کمرتوڑ اقتصادی پابندیاں ہٹا لی ہیں اور شام کا دہائیوں سے چلا آ رہا " اچھوتی درجہ " معطل کر دیا ہے۔
پابندیوں کے خاتمے کے کچھ مثبت نتائج بھی نکلے ہیں۔ مثلاً تیل اور گیس کی صنعت میں جدت کاری کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے کچھ سمجھوتے ہوئے ہیں۔ حلب اور دمشق ایرپورٹوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ مگر خود دمشق میں قائم عبوری حکومت کی رٹ اب تک پورے ملک پر قائم نہیں ہے۔ شمال مشرقی علاقہ کردوں کے کنٹرول میں ہے۔ جنوب میں مقبوضہ گولان سے متصل السویدہ صوبے میں آباد تین فیصد دروز اقلیت اسرائیل کی مسلح پشت پناہی سے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر رہی ہے۔ گزرے جولائی اس علاقے میں سنی بدو قبائل اور دروزیوں کے درمیان جھڑپوں کے سبب ہزاروں شہریوں کو ایک بار پھر نقلِ مکانی کرنا پڑی۔
ساحلی پٹی پر آباد دس فیصد علوی اقلیت سنی اکثریتی حکومت سے خوفزدہ ہے۔ حالانکہ ان علویوں سے ایک برس پہلے تک تمام شامی خوفزدہ تھے۔ سابق اسد خاندان کے چون سالہ دور میں تمام فوائد سمیٹنے والے علویوں اور سنی ملیشیاؤں کے درمیان گزشتہ مارچ میں جھڑپوں کے دوران لگ بھگ ڈیڑھ ہزار افراد مارے گئے۔ مگر اقوامِ متحدہ کی ایک حقائق جو ٹیم چھان پھٹک کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ اس قتل و غارت میں احمد الشرح حکومت کی پشت پناہی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔
بشار الاسد حکومت کا زوال آتے ہی اسرائیل نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے فوجی ڈھانچے کو بہت حد تک تباہ کر دیا۔ موقر ویب سائٹ آرمڈ کونفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا (ایکلڈ) کے مطابق اسرائیل نے گزشتہ برس آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کے یومِ معزولی سے اس سال اٹھائیس نومبر تک اوسطاً شام پر روزانہ ڈھائی حملے کیے۔ ساڑھے چھ سو سے زائد حملوں میں عسکری مراکز، ایرپورٹس، بندرگاہوں، انتظامی مراکز، فوجی و نیم فوجی اداروں اور تنظیموں کو انفرادی و اجتماعی طور پر نشانہ بنایا گیا۔
بیشتر حملے دمشق، قونیترہ اور الدورہ صوبوں پر کیے گئے۔ اسد حکومت کے زوال کے صرف چار روز کے اندر اسی فیصد فضائی دفاعی نظام تباہ کر دیا گیا۔ بشارالاسد کے دور میں اسرائیل ایرانی ٹھکانوں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بہانے حملے کرتا رہا اور اب " متشدد جہادی قوتوں " کو اسلحے کی رسائی اور نفوذ روکنے کو بہانہ بنا رہا ہے۔
نیتن یاہونے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنگر کی ثالثی میں طے پانے والے انیس سو چوہتر کے اکیاون برس پرانے جنگ بندی معاہدے کو پھاڑ کر جنوبی شام کے اندر اٹھارہ کیلومیٹر مزید پیشقدمی کرکے ساڑھے چھ سو مربع کیلومیٹر نیا علاقہ ہتھیا کر فوجی چوکیاں اور قلعہ بندیاں قائم کر لیں۔ اس میں وہ پٹی بھی شامل ہے جسے اقوامِ متحدہ نے پانچ عشروں سے بفر زون قرار دے رکھا ہے۔ یوں سمجھئے کہ اس وقت دمشق براہِ راست اسرائیلی توپوں کی زد میں ہے۔ نیتن یاہونے شرط رکھی ہے کہ جب تک دمشق حکومت مذکورہ علاقے کو غیر فوجی خطہ ڈکلئیر کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی اسرائیل اپنی فوج پیچھے نہیں ہٹائے گا۔
اگرچہ اسد خاندان کے بغیر شام پہلے سے بہتر سانس لے رہا ہے مگر عام آدمی بنیادی سہولتوں کی بحالی اور مستقبل کے خدشات کے درمیان ایک برس پہلے کی طرح جھول رہا ہے۔ تاہم بیرونِ ملک شامی اپنے سفری سامان میں امیدیں باندھ کے واپس بھی لوٹ رہے ہیں۔
چودہ سالہ خانہ جنگی نے ملک کی دو کروڑ ستر لاکھ آبادی میں سے ایک تہائی (اڑسٹھ لاکھ) کو کھدیڑ کے رکھ دیا اور پناہ کی تلاش میں ملک چھوڑنا پڑا۔ ان میں سے لگ بھگ سینتیس لاکھ پناہ گزین ترکی، ساڑھے آٹھ لاکھ لبنان اور پونے سات لاکھ اردن گئے۔ یورپی یونین نے لگ بھگ سات لاکھ پناہ گزینوں کو عارضی طور پر قبول کیا اور اب یہ یورپی ممالک ان کی واپسی پر زور دے رہے ہیں۔ سیاسی پناہ کی نئی اور زیرِ غور درخواستوں پر فیصلہ روک دیا گیا ہے۔
نقلِ مکانی پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے آئی او ایم کا اندازہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں تقریباً آٹھ لاکھ پناہ گزین وطن واپس لوٹے ہیں۔ جب کہ اندرونِ ملک دربدر اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے والے پناہ گزینوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ ہے۔ اب بھی تقریباً ساٹھ لاکھ لوگ اندرونِ ملک پناہ گزینی بسر کر رہے ہیں۔
شام میں اس وقت فی خاندان ماہانہ اوسط آمدنی ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالر ہے اور مہنگائی و نایابی دوگنی ہے۔ خانہ جنگی سے ہونے والی بربادی کے سبب مکانات کی شدید قلت ہے۔ کرائے آسمان پر ہیں۔ شام کے چودہ صوبوں کی مجموعی آبادی میں سے نصف تین صوبوں دمشق، حلب اور ادلب میں ہے اور انھی تین صوبوں میں رہائش، روزگار اور تعمیرِ نو کے مسائل زیادہ سنگین ہیں۔
سابق دور میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے سبب قومی دل و دماغ پر لگنے والے گھاؤ بھرنے کا سنگین مسئلہ بھی نئی حکومت کو درپیش ہے۔ یہ گھاؤ کس قدر گہرے ہیں۔ اس کا احاطہ اگلے مضممون میں کرنے کی کوشش ہوگی۔

