Mian Muhammad Baksh (22)
میاں محمد بخش (22)

دلبر مُکھ وکھاندا ناہیں، داغ میرا کس دھونا؟
ساجن دا در چھوڑ محمد، کس در جا کھلونا؟
"The beloved does not show the face, who will wash my stain (of dishonor)?
Leaving the door of the friend, Muhammad, what other door can I stand at?"
عبدالرحمان، آؤ آج ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو نہایت درد بھرے، سوالیہ اور حقیقت کو جگانے والے مصرعوں پر غور کریں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو عاشق کے دل کی انتہائی بے بسی اور عاجزی کو بیان کرتے ہیں:
یہاں شاعر ایک طرف محبوب (اللہ تعالیٰ یا محبوبِ حقیقی) کے دیدار کی کمی پر روتا ہے اور دوسری طرف اپنی کمزوری اور گناہوں کے داغ کو دیکھ کر سوال کرتا ہے: اگر محبوب اپنا چہرہ نہ دکھائے تو میری عزت اور روح کی صفائی کون کرے گا؟ پھر وہ جواب خود دیتا ہے کہ اُس در کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ اُس کے علاوہ کوئی اور در نہیں جہاں میں جا سکوں۔ آؤ عبدالرحمان، اب اس کو سوال و جواب، حکایات اور نصیحت کے ساتھ تفصیل سے کھولتے ہیں تاکہ بات دل میں اُتر جائے۔
جانتے ہو کہ "محبوب چہرہ کیوں نہیں دکھاتا؟"
عبدالرحمان، محبوب کا چہرہ یعنی اُس کی قربت اور رضا۔ جب بندہ غفلت میں ہو، گناہوں میں ڈوبا ہو، تو محبوب اس پر اپنی کرم کی نظر کم کر دیتا ہے۔ یہ اس لیے کہ بندہ اپنی کمزوری پہچانے اور توبہ کرے۔
یہ کیفیت صوفیاء "حجاب" کہتے ہیں۔ حجاب دل اور محبوب کے درمیان حائل پردہ ہے۔ یہ پردہ دنیا کی محبت، گناہ، غرور اور غفلت سے بنتا ہے۔ محبوب کا چہرہ اصل میں تو ہر جگہ ہے، لیکن دل کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
جانتے ہو کہ "میرے عیب اور داغ کون دھوئے گا؟"
عبدالرحمان، انسان کے گناہ، خطائیں اور کمزوریاں اس کے چہرے پر داغ کی مانند ہیں۔ دنیا والے تو عیب اُچھالتے ہیں، لیکن ان کو دھونے والا صرف محبوب ہے۔ قرآن کہتا ہے: "ان الله یحب التوابین ویحب المتطهرین" (البقرہ: 222)
"یقیناً اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے"۔
یعنی اگر محبوب اپنا کرم نہ کرے، تو کوئی اور ان داغوں کو دھو نہیں سکتا۔
جانتے ہو کہ "کیا میں دوسرے در پر جا سکتا ہوں؟"
عبدالرحمان، ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: نہیں۔ اللہ کے در کو چھوڑ کر کوئی اور در نہیں۔ دنیا کے سب در جھوٹے ہیں۔ اگر عزت چاہیے تو اللہ کے در پر ہے، اگر سکون چاہیے تو اللہ کے در پر ہے، اگر معافی چاہیے تو اللہ کے در پر ہے۔
صوفیاء کہا کرتے تھے: "اگر درِ الٰہی بند ہوگیا تو اور کوئی در نہیں"۔ اسی لیے ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ میں کہاں جاؤں؟ میرے لیے تو بس یہی ایک در ہے۔
جانتے ہو کہ "اس کیفیت میں بندہ کیا کرے؟"
عبدالرحمان، اس کیفیت میں بندے کو تین چیزیں کرنی چاہییں:
توبہ، اپنے گناہوں کا اعتراف کرے اور دل سے رجوع کرے۔
صبر، محبوب کا انتظار کرے، جلد بازی نہ کرے۔
دعا، مسلسل درِ الٰہی پر دستک دیتا رہے۔
یہی تین راستے ہیں جن سے پردے ہٹتے ہیں اور محبوب چہرہ دکھاتا ہے۔
جانتے ہو کہ "یہ شعر آج کے انسان کو کیا سکھاتا ہے؟"
عبدالرحمان، آج لوگ عزت دنیا کے دروازوں پر ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی حکمران کے در پر، کبھی مالدار کے در پر، کبھی عہدے کے در پر۔ لیکن یہ سب وقتی ہیں۔ اصل عزت اور اصل پاکیزگی صرف اللہ کے در سے ملتی ہے۔
یہ شعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اپنا رخ ہمیشہ اللہ کی طرف رکھو۔ اگر اس کا کرم مل گیا تو سب کچھ مل گیا، اگر وہ ناراض ہوگیا تو دنیا کی عزت بھی بے کار ہے۔
عبدالرحمان، ایک درویش بادشاہ کے دربار میں گیا۔ بادشاہ نے کہا: "مجھ سے کچھ مانگو"۔ درویش نے کہا: "میں اس کے در پر جا کر کیوں کسی اور سے مانگوں؟ اگر وہ چاہے تو تیرے دل میں ڈال دے گا کہ تُو مجھے دے دے"۔ یہی حقیقت ہے کہ درویش صرف ایک در کو پہچانتا ہے، اللہ کا در۔
جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں اس نصیحت پر کیسے عمل کریں؟"
عبدالرحمان۔
میاں محمد بخشؒ نے ان دو بصیرت افروز مصرعوں میں عاشق کے دل کی مکمل بے بسی، عاجزی اور اپنے محبوب سے والہانہ وابستگی کو بیان کیا ہے۔ عاشق، جو اپنی خطاؤں سے شرمندہ ہے، کہتا ہے: "اگر میرا محبوب (اللہ) اپنا رحم بھرا جلوہ نہ دکھائے اور میری طرف مہربانی کی نظر نہ کرے، تو میرے باطنی عیب اور گناہ کون دھوئے گا؟" وہ خوب جانتا ہے کہ دنیا میں کوئی اور دربار، کوئی اور طاقت یا کوئی اور پناہ گاہ ایسی نہیں ہے جہاں وہ جا سکے اور جہاں اسے سچی معافی مل سکے۔ اس لیے وہ ایک یگانگت اور توکل کے عالم میں اعلان کرتا ہے کہ میرا سب کچھ اسی ایک در پر ہے، میری امیدیں، میرے خوف، میری عاجزی اور میری زندگی کا مقصد سب اسی ایک مرکز سے جڑے ہیں۔
عبدالرحمان صاحب، یہ اشعار ہمیں عملی بندگی کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے کے لیے ہمیں یہ اصول اپنانے چاہییں: اولاً، جب بھی کوئی گناہ یا خطا سرزد ہو تو اپنی صفائی دنیا کے لوگوں سے نہ مانگو، کیونکہ وہ خود عیب دار ہیں، صرف اللہ سے معافی مانگو۔ ثانیاً، جب تمہیں حقیقی عزت، سکون اور وقار چاہیے ہو تو دنیا کے عارضی اور جھوٹے درباروں میں مت جھکو، بلکہ اللہ کے سامنے جھکو اور ثالثاً، ہر وقت اللہ کے در پر جمے رہو، بالکل اسی طرح جیسے کوئی حقیقی فقیر دروازے پر ڈٹ جاتا ہے اور مایوس نہیں ہوتا۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل عزت، اصل پناہ اور اصل معافی صرف اللہ کے کرم اور فضل سے ہے۔ دوسرے تمام دربار، طاقتیں اور سہارے وقتی اور دھوکہ ہیں۔

