Taqat Ke Mehvar Mein Ghair Mamooli Tabdeeli
طاقت کے محور میں غیر معمولی موڑ

پاکستان میں پہلی بار ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو فوجی عدالت سے سزا سنائے جانے کے واقعے نے ریاستی اداروں، سیاست اور عوامی بیانیے میں ایک غیر معمولی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ معاملہ محض ایک فرد کی سزا نہیں بلکہ پاکستان کے طاقت کے نظام میں ایک نئے رخ کی نشاندہی ہے، ایسا موڑ جو کئی اعتبار سے علامتی بھی ہے اور ساختیاتی بھی۔
فوج پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ ہے اور آئی ایس آئی اس ادارے کا سب سے حساس اور بااثر ستون۔ ایسے منصب پر فائز شخص کے خلاف کارروائی کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ایک سابق افسر کے معاملات زیرِ سوال آئے، بلکہ یہ کہ ادارہ اپنی داخلی حدود اور پیشہ ورانہ نظم کی ازسرنو تعمیر کا پیغام دینا چاہتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ سوال موجود رہا ہے کہ کیا طاقت کے بڑے حلقوں میں بھی جوابدہی ممکن ہے؟ اس فیصلے نے اس سوال کا کم از کم جزوی جواب ضرور دیا ہے۔
تاہم، سیاسی تناظر اس پورے معاملے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج اور سیاست کے تعلقات ہمیشہ ہموار نہیں رہے۔ مختلف حکومتوں اور طاقت کے مراکز کے درمیان فاصلے اور قربت نے ملک میں سیاسی انجینئرنگ، پس پردہ فیصلوں اور طاقت کی کشمکش کے کئی ادوار پیدا کیے۔ ایسے میں یہ فیصلہ بظاہر اصلاح یا انجینئرنگ، دونوں میں سے کسی بھی زاویے کی توثیق کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بعض تجزیہ کار اسے طاقت کے نئے توازن کی تلاش قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ کے نزدیک یہ ایک منظم ادارہ جاتی صفائی کی علامت ہے۔
اس فیصلے نے آئی ایس آئی کے کردار کو بھی بحث میں لے آیا ہے۔ طویل عرصے سے سیاسی جماعتیں اس پر اثرانداز ہونے کے الزامات لگاتی رہی ہیں۔ اب جب ایک سابق سربراہ پر اختیارات کے غلط استعمال اور سیاسی مداخلت جیسے الزامات ثابت ہوتے ہیں، تو یہ الزام اور ادارہ دونوں ایک نئی ساکھ سازی کے مرحلے سے گزرتے نظر آتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد مستقبل میں کسی بھی سکیورٹی ادارے کے سربراہ کے لیے ایک واضح مثال قائم ہوگی کہ ادارہ جاتی حدود کیا ہیں اور ان حدود سے تجاوز کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
عوامی ردعمل بھی غیر یکساں ہے۔ ایک طبقہ اسے قانون کی بالا دستی کا اشارہ سمجھتا ہے اور فرقہ وارانہ یا طبقاتی امتیاز کے بغیر احتساب کو ایک مثبت تبدیلی مانتا ہے۔ لیکن دوسرا طبقہ اسے ایک نئی سیاسی ترتیب کا حصہ سمجھتا ہے جہاں کچھ فیصلے داخلی اختلافات کے پس منظر میں لیے جاتے ہیں۔ یہی تقسیم پاکستان کے موجودہ سماجی مزاج کی عکاس ہے جو پہلے ہی سیاسی قطبیت کا شکار ہے۔
آگے چل کر اس فیصلے کے اثرات دو رُخی ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ مضبوطی سے قائم رہتا ہے تو فوجی اداروں میں ادارہ جاتی نظم بڑھے گا اور ممکن ہے کہ سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کا بیانیہ بھی مضبوط ہو۔ لیکن اگر یہ فیصلہ مستقبل میں تبدیل یا کمزور ہوتا ہے تو یہ معاملہ ایک وقتی سیاسی واقعہ بن کر رہ جائے گا۔
مختصراً، پاکستان اس وقت ایک ایسے مرحلے سے گزر رہا ہے جہاں ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوامی توقعات کے درمیان نئی حدیں کھنچ رہی ہیں۔ سابق آئی ایس آئی چیف کی سزا اسی بڑے عمل کا ایک نمایاں واقعہ ہے، ایک ایسا واقعہ جو آنے والے برسوں میں سول–ملٹری تعلقات، ادارہ جاتی احتساب اور قومی بیانیے کے ڈھانچے پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔

