Khamosh Inqilab Ki Moamar
خاموش انقلاب کی معمار

ٹرینڈ سیٹ کرنے والے، راستہ بنانے والے اور مشکل راستوں پر چلنے والے لوگ ہمیشہ نایاب ہی رہے ہیں۔ ورنہ تو اکثر لوگ دنیا کی بھیڑ کا حصہ بن کر محفوظ رہنا چاہتے ہیں اور گمنامی کی دلدل میں کہیں دفن ہو جاتے ہیں۔ لیکن تاریخ اور معاشرہ ہمیشہ ان افراد کو یاد رکھتا ہے جو روایات سے ہٹ کر سوچنے کی جرات رکھتے ہیں۔ پہلا قدم اٹھانے کی ہمت دکھاتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کو ہی اپنی طاقت بنا لیتے ہیں اور دوسروں کے لیے راہیں ہموار کر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ضرور ہوتے ہیں مگر اثر میں بےمثال ہوتے ہیں۔ جو دنیا کی بھیڑ سے ہٹ کر اپنا راستہ خود تراشتے ہیں۔
یہ وہ ہستیاں ہیں جو زمانے کی مروجہ روایات سے ٹکرا کر نیامعیار زندگی قائم کرتی ہیں۔ جو مشکل کو راستہ نہیں بلکہ منزل کا نقشہ سمجھتی ہیں۔ ٹرینڈ سیٹ کرنا، روایت سے ہٹ کر سوچنا اور مشکل کو چیلنج بنا کر قبول کرنا ہر کسی کا کام نہیں ہوتا۔ اس کے لیے جرات، صبر اور حوصلہ چاہیے اور وہ اندر کی آگ بھی جو انسان کو عام سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو معاشرئے میں رہتے ہوئے صرف سوچ نہیں بدلتے بلکہ سوچنے کا زاویہ اور انداز بدل دیتے ہیں۔ ٹرینڈ سیٹ کرنے والے اور اپنی الگ شناخت رکھنے والے ہمیشہ میرا آئیڈیل رہے ہیں۔ کیونکہ انفرادی سوچ، تخلیق اور نو آوری کی بنیاد ایسے ہی لوگوں سے تشکیل پاتی ہے۔
گذشتہ دنوں ایک شادی کی تقریب میں اپنی نہایت قابل احترام تایا زاد بڑی بہن سے ملاقات ہوئی جو ماشااللہ نہ صرف مجھ سے عمر میں بڑی ہیں بلکہ اپنی ذہنی صلاحیتوں اور ہمت کی باعث وہ میری تمام رشتے کی بہنوں میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے استاد ہونے کا شرف بھی رکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ نیک استاد کسی ولی سے کم نہیں ہوتا۔ اپنی زندگی کی آٹھویں دہائی میں بھی وہ اپنے چاندی جیسے سفید بالوں اور مسکراتی ہوئی روشن پیشانی کے ساتھ نہایت باوقار نظر آتی ہیں۔ میری یہ بہن ہمیشہ سے میری حوصلہ افزائی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ شاید ہر بہن کی محبت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو دنیا کا سب سے قابل او ذہین انسان سمجھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان جیسی بہادر، روشن دماغ اور راستہ بنانے والی خاتون مجھے پورے خاندان میں دکھائی نہیں دیتی کیونکہ انہوں نے ہمارے اور اپنے خاندان کی خواتین کی ترقی کے لیے جس مشکل راستے کا انتخاب آج سے ساٹھ سال قبل اس وقت کیا جب خواتین کی ملازمت تو دور کی بات ہے تعلیم کی اجازت بھی مشکل اور جرم ہوا کرتی تھی۔ ان کا وہ فیصلہ آج بھی قابل تحسین ہے۔ جی ہاں! یہ ہماری بہن رفعت بتول ہے جو ہمارئے خاندان کی تاریخ میں ایک ایسا روشن ستارہ ہے جس نے اس وقت علم کی شمع جلائی جب بچیوں کا پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا اور لڑکی کا گھر سے نکل کر تعلیم حاصل کرنا ایک جرم بلکہ بغاوت سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں وہ ہمت کی علامت بن کر سامنے آئی جس نے خاندان کی سوچ بدل دی۔
اس بہادر خاتون نے نہ صرف علم کے دروازئے پر دستک دی بلکہ اپنے حوصلے اور ہمت سے تعلیم کا دروازہ کھول کر آنے والی نسلوں کے لیے نئی راہیں روشن کردیں اور پھر بہن رفعت بتول نے تعلیم کے مشکل سفر کے بعد جب بطور استاد عملی دنیا میں قدم رکھا تو یہ صرف نوکری نہیں تھی بلکہ یہ ایک اعلان تھا کہ لڑکیاں پڑھ سکتی ہیں، پڑھا سکتی ہیں، سکھا سکتی ہیں اور سماج کا نقشہ بدلنے کی ہر صلاحیت رکھتی ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے خوبصورت راستوں کا تعین کر سکتی ہیں۔ لوگوں کی اٹھنے والی انگلیوں کی پرواہ کئے بغیر ملازمت کا آغاز ان کی خاندانی روایات سے ہٹ کر ایک ایسی جرات تھی جس نے ہمارے قبیلے، ہمارے ماحول اور ہماری سوچ کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنا سکھا یا۔
آج ہمارے خاندان کی جو بچیاں ڈاکٹر، انجینیر، استاد، لیکچرار، افسر، بینکار اور پروفیشنل زندگی میں کامیاب نظر آتی ہیں وہ دراصل اسی روشنی کی کرنیں ہیں جس شمع کو انہوں نے برسوں پہلے رسم ورواج کے برعکس جلانے کی ہمت کی تھی۔ یوں وہ خاندان بھر میں خاموش تعلیمی انقلاب کی معمار بن کر سامنے آئیں اور دوسروں کے لیے خود کو ایک رول ماڈل بن کر دکھایا۔ گھرداری اور ملازمت کا امتزاج ان کی خوبی قرار پایا۔ میں ہمیشہ انہیں اپنے خاندان کی وہ اصل محسن کہتا ہوں جو تعلیم کی جنگ کی پہلی سپاہی بن کر سامنے آئی۔
شاید یہ بات کسی کے لیے اہمیت نہ رکھتی ہو لیکن جس خاندان میں کسی لڑکی یا خاتون نے کبھی مڈل سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی ہو اور جہاں ملازمت کی سوچ دور دور تک دکھائی نہ دیتی ہو۔ ایسے معاشرئے میں گھر کی دہلیز سے باہر کی ملازمت تک کا سفر اور خاموشی میں بولتا ہوا حوصلہ ناقابل یقین ہے۔ وہ بہترین استاد ہی نہیں بہترین بیوی اور محبت کرنے والی ماں بھی ثابت ہوئیں۔ آج بھی باہمی رشتوں اور تعلق کو نبھانے کے فن سے آراستہ یہ خاتون ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آج ہمارے گھروں کی بچیاں تعلیم کے میدان میں جو کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کر رہی ہیں یہ ٹرینڈ سیٹ انہی کی بدولت ہوا ہے۔
وہ صرف میری تایا زاد بہن نہیں، یا ہمارے خاندان کی بیٹی ہی نہیں، اپنے بچوں کی ماں ہی نہیں، وہ تو ایک ادارہ ہیں، وہ صرف ایک استاد نہیں، وہ خاندان میں تبدیلی کی پہلی لہر اور پہلی لکیر ہیں۔ وہ صرف ہمت کی مثال نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کا فخر ہیں۔ آج ہم ان کے اس حوصلے اور جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس وقت ہمت نہ کی ہوتی تو آج ہمارے گھروں کی بچیوں میں علم کی خوشبو اور ترقی کی مہک نہ پھیلتی۔ اللہ انہیں صحت عزت اور سکون عطا فرمائے۔ ان جیسی بیٹیاں اور بہنیں ہی خاندانوں اور قوموں کی تقدیر بدلتی ہیں۔
آج اگر ہم ایک پڑھا لکھا خاندان سمجھے جاتے ہیں تو یقیناََ یہ انہیں کاوشوں کا ثمر ہے جو رفعت بتول کے حوصلوں سے پروان چڑھنے والے درخت پر لگا ہے۔ میری اپنی اولاد کے لیے بھی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی کی نقل یا تقلید کی بجائے اپنی زندگی کا راستہ اور منزل سب سے مختلف اور الگ رکھیں تاکہ نئی نسل کے لیے ترقی کے مزید راستے کھل سکیں۔ اس مرتبہ کی ملاقات کے دوران رفعت بہن نے مجھے بتایا کہ ان کی نواسی میرئے کالم اور آرٹیکل بڑئے شوق سے پڑھتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ نانی جان آپ کے بھائی جاوید بہت ذہین ہیں اور ان کی تحریریں بڑی پراثر اور الفاظ بڑے گہرےہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر اس بچی کا تم سے ملنے کو دل کرتا ہے۔
میں نے انہیں جواب دیا کہ اس ننھی بچی کو میرا پیغام دینا کہ میری ساری ذہانت اور تحریروں کی خوبصورتی میرے الفاظ میں نہیں بلکہ میرے سچ میں چھپی ہے۔ سچ لکھنا مشکل ضرور ہے لیکن پڑھنے والے کے دل کو بہت بھاتا ہے اور سچ یہ ہے کہ یہ سب میں نے رفعت بتول جیسی بہنوں سے ہی سیکھا ہے۔ کیونکہ علم طے کرتا ہے کہ کیا کہنا اور کیا لکھنا ہے اور مہارت طے کرتی ہے کہ کیسے کہنا یا لکھنا ہے اور طرز عمل طے کرتا ہے کہ کس قدر کہنایا لکھنا ہے جبکہ دانشمندی یہ طے کرتی ہے کہ کہنا یا لکھنا بھی ہے نہیں؟ اور یہ محتاط انداز میں نے اپنی بہن رفعت بتول سے سیکھا ہے۔
کاش ہماری نئی نسل میں سے بھی کوئی رفعت بتول اور بھی پیدا ہو جو ایسا ٹرینڈ سیٹ کردے ٔ جو سب سے منفرد ہو۔ کیونکہ دنیا میں ہر دور کا راستہ الگ ہوتا ہے اور مثالی شخصیات رہنمائی دیتی ہیں اور راستہ بنانے والوں کی پیروی ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ پیروی کا مقصد شخصیت بننا نہیں بلکہ اس روشنی سے اپنا منفرد راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جو محنت، اصول، عزم اور راستہ بنانے کی جرات سے ہی ملتا ہے۔ دنیا میں وہی بڑا اور عظیم ہوتا ہے جو اپنی شناخت دوسروں سے الگ بناتا ہے۔

