Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Jab Zara Si Ghalati Bari Musibat Ban Gayi

Jab Zara Si Ghalati Bari Musibat Ban Gayi

جب ذرا سی غلطی بڑی مصیبت بن گئی

میں فون کان سے لگائے بے یقینی سے سن رہا تھا اور دل ہی دل میں اس شخص کو کوس رہا تھا جس کی ذرا سی لاپروائی میرے لیے بڑی مشکل بن چکی تھی۔ اسپتال کی انتظار گاہ میں لوہے کی کرسی پر بیٹھ کر میں نے خود کو تھامنے کی کوشش کی۔ دسمبر کی سردی میں کرسی کی ٹھنڈک میرے وجود میں اترتی جا رہی تھی۔

کہانی تب شروع ہوئی جب نوکری ملنے پر دفتر والوں نے بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ اس موقع پر جو ضروری تفصیلات درکار ہوتی ہیں، وہ درج کی گئیں۔ جیسے کہ شناختی کارڈ نمبر، والد اور والدہ کا نام، پتہ، موبائل فون نمبر وغیرہ۔

اکاؤنٹ کھل گیا اور مالی معاملات کئی سال تک بغیر کسی مسئلے پریشانی کے چلتے رہے۔ اس دوران کتنی ہی بار ڈیبٹ کارڈ کی میعاد ختم ہوئی۔ ہر بار نیا کارڈ آ جاتا۔ اس وقت نئے کارڈ کو چالو کرنے کے لیے اے ٹی ایم پر جانا پڑتا تھا۔ کارڈ کے ساتھ جو کوڈ دیا گیا ہوتا، وہ اے ٹی ایم پر درج کرنے سے کارڈ فعال ہو جاتا۔ پھر اے ٹی ایم سے ہی پن نمبر تبدیل کر لیا جاتا۔ ہر بار نیا ڈیبٹ کارڈ آنے کے بعد میں یہی مراحل طے کیا کرتا۔

مجھے کیا خبر تھی کہ ایک روز یہ طریقہ تبدیل ہو جائے گا، تب مجھے پتہ چلے گا کہ بینک کے ایک اہل کار نے کمپیوٹر پر تفصیلات درج کرتے ہوئے ذرا سی جو لاپروائی کی تھی وہ میرے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن چکی ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب مجھے پیسوں کی بہت سخت ضرورت ہے۔

بینک اکاؤنٹ کھلوائے سات سال بیت چکے تھے، اس دوران میری شادی ہو چکی تھی اور گھر میں پہلے بچے کی آمد متوقع تھی۔ باقاعدگی سے ڈاکٹر کو دکھایا جا رہا تھا، ضرورت پڑنے پر جس اسپتال جانا ہے، وہ بھی طے کر لیا گیا تھا۔ اس اسپتال کے انتخاب میں ڈاکٹر کا مشورہ بھی شامل تھا۔ دفتر کی جانب سے ہیلتھ انشورنس فراہم کی گئی تھی اور جو اسپتال چنا تھا وہ بھی انشورنس کمپنی کے پینل پر تھا، تو اس طرف سے بھی تسلی تھی۔ کرنا بس یہ تھا کہ اسپتال جا کر استقبالیہ پر موجود فرد کو کارڈ دکھانا تھا اور کسی قسم کی ادائیگی کے بغیر ہی باقی کے تمام مراحل انہوں نے خود سنبھال لینے تھے۔

اسپتال والوں کو آگاہ بھی کر دیا تھا کہ میں فلاں کمپنی کا ہیلتھ انشورنس کارڈ رکھتا ہوں، آپ کا اسپتال اس کے پینل پر ہے اور جب بچے کی پیدائش کا مرحلہ درپیش ہوا تو آپ کے اسپتال میں ہی انجام پائے گا۔ میری بات سن کر انہوں نے بھی کوئی حجت نہ کی تھی، کوئی اعتراض عائد نہ کیا تھا۔ اس کے باوجود کسی ناگہانی کی صورت اگر ضرورت پڑتی ہے، تو بینک اکاؤنٹ میں ایک مناسب سی رقم بھی رکھ چھوڑی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔

پھر وہ دن آیا جب اسپتال جانا پڑا اور وہیں بہت سی غیر متوقع چیزیں سامنے آئیں۔ ایک کے بعد دوسرا مسئلہ کھڑا ہوتا چلا گیا۔

اسی دن میرا پرانا ڈیبٹ کارڈ منسوخ ہو چکا تھا اور اس کی جگہ نیا کارڈ آیا تھا، جسے فعال کرانا ضروری تھا۔

جب ہم اسپتال پہنچے اور انہیں بتایا کہ ہیلتھ انشورنس کارڈ موجود ہے، اس سلسلے میں آپ سے بات بھی ہو چکی ہے، تو یہاں پہلی مشکل کا سامنا ہوا۔ اسپتال والوں نے کہا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے، لیکن چوں کہ آپ کی ڈاکٹر صاحبہ ہمارے اسپتال سے وابستہ نہیں ہیں، تو آپ کو تمام اخراجات نقد ادا کرنے ہوں گے۔ یہ رقم بعد میں آپ ہیلتھ انشورنس والی کمپنی سے واپس لے سکیں گے۔

میں نے کہا، چلیں ٹھیک ہے، میں نقد ادا کر دوں گا۔ تو اسپتال والوں نے 50 ہزار روپے پیشگی مانگ لیے۔

50 ہزار روپے؟ میرے پاس رقم تو ہے لیکن پاس نہیں ہے، بینک اکاؤنٹ میں ہے۔ ارے یاد آیا، ڈیبٹ کارڈ نیا آیا ہے اور اسے چالو کرانا ہے، پھر اے ٹی ایم پر جا کر رقم نکلوا لاؤں گا اور اسپتال والوں کے حوالے کر دوں گا۔ ڈیبٹ کارڈ جس لفافے میں آیا تھا، جب اسے کھولا تو پتہ چلا کہ کارڈ فعال کرانے کا طریقہ تبدیل ہو چکا تھا۔ پہلے تو اس مقصد کے لیے اے ٹی ایم پر جانا ہوتا تھا، نئے احکامات کے تحت اب اپنے نمبر سے ہیلپ لائن کو فون کرنا تھا۔ سو میں نے کیا فون۔ اب بینک والے کہیں کہ اس نمبر سے فون کیجیے جو اکاؤنٹ کھلواتے وقت آپ نے درج کیا تھا۔ میں انہیں بتاؤں کہ اسی نمبر سے تو کال کر رہا ہوں۔ وہ مان کے نہ دیں۔ بہت دیر بحث چلتی رہی۔

عقدہ یہ کھلا کہ میرا موبائل فون نمبر، جس کے آخری چار ہندسے تھے 1749، انہیں کمپیوٹر پر درج کرنے والے بینک اہل کار نے 1479 لکھ دیا تھا۔ ہندسوں کے اندراج میں یہ معمولی سی غلطی قریب سات سال پہلے کی گئی تھی جب بینک اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ سات سال تک میرے تمام بینکنگ معاملات بغیر کسی رکاوٹ کے چلتے رہے۔ لیکن جس وقت مجھے رقم کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، برسوں پہلے کی گئی معمولی سی غلطی، اسی وقت سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔ اس وقت رات کے نو یا دس بج رہے تھے، یعنی بینک بھی بند تھے اور چیک کے ذریعے بھی رقم نہیں نکلوائی جا سکتی تھی۔

پھر صاحبو! ہوا یہ کہ جب مجھے رقم کی سخت ضرورت تھی اور رقم میرے اکاؤنٹ میں موجود بھی تھی، اسی موقع پر میں وہ رقم حاصل نہ کر سکا۔ کبھی سوچا نہ تھا زندگی میں ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ وسائل موجود ہوں، ملکیت میں ہوں، لیکن دسترس میں نہ ہوں۔

Check Also

Zindagi Badal Chuki Hai

By Syed Mehdi Bukhari