Wednesday, 13 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Qurbanian Mangta Khandani Nizam

Qurbanian Mangta Khandani Nizam

قربانیاں مانگتا خاندانی نظام

ہمارے ہاں خاندانی نظام کے عجیب و غریب گن گائے جاتے ہیں، جس میں ہمیشہ قربانیوں کو آئیڈیلائز کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ خاندانی نظام بر صغیر میں کسی وقت میں معاشرتی ساخت کے اعتبار سے ضروری ہوسکتا تھا، کچھ قبائل میں اور کچھ خطوں میں ماضی میں اس کی اہمیت اور ضرورت رہی ہے، لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ اس کے مسائل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

اس پورے بر صغیر ملٹیپل خاندانی سٹرکچر میں شدید ترین مسائل ہیں، جو کہ صدیوں پر محیط سوسائٹی ایک خاص اسٹرکچر میں گزرتی رہی، تو اس کی ڈیپینڈنسی کے عوامل کی بنیاد پر اس کی حمایت بھی کی جاتی ہے، اور کچھ لوگوں اسے مذہب سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج سارا یورپ اور عرب سوسائٹی زمانہ قبل از اسلام سے نیو کلیر خاندانی نظام میں ہی جی رہے ہیں۔ اس لئے اس کے لئے یا رد میں بھی مذہب کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک خالصتا سماجی معاملہ ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام میں کم از کم بر صغیر میں آپ شدید استحصال تو ضرور دیکھتے ہیں۔ اس میں فرد کی اپنی زندگی انتہائی برباد ہوتی ہے فرد کا فیصلہ محدود ہوتا ہے، ہر شخص دوسرے کے سپیس میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں اس میں حفظ مراتب رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور وہیں ان رشتوں میں طاقت کے سروائیول کی جنگ چلتی ہے۔ پھر اس میں ہمیشہ سروائیور ہونا کامیابی کی نشانی ہوتی ہے۔ اس نظام میں ہمیشہ طاقتور جیتتا ہے اور جو ہار جاتا ہے اس کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ یہ ایک بنیادی سی بات ہے۔ ملٹیپل خاندان بھی بالاخر جھگڑے کے بعد ہی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ بھی کیسا عجیب نظام ہے کہ ایک فرد یا بزرگ افراد اپنے بیٹوں کی شادی کرا کر انہیں اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔

مگر ایسا حقیقتا نہیں ہوتا وہ خود اپنے بھائیوں سے الگ ہو کر نیوکلیر فیملی کی خواہش کرکے نئی نیوکلیر فیملی بناتے ہیں مگر پھر بڑھاپے میں اپنے بیٹوں پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب سے عجیب بات ہے کہ جیسے ملٹیپل خاندان کہنا چاہتے ہیں وہ بھی ملٹیپل خاندان نہیں ہوتا، بلکہ ایک خاندان صرف اپنی ذریت میں ملٹیپل خاندان ہوتا ہے، کیونکہ وہ وہاں پر اپنا جبر قائم کر سکتا ہے۔ جہاں جبر قائم نہیں رہ پاتا وہاں پر یہ معاملہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس سروائیور میں چھوٹے گروہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ملٹیپل خاندان توڑ دیتے ہیں۔

اور اس جنگ میں سروائیور چونکہ ایک جدوجہد کے بعد ملٹیپل خاندان کو توڑتا ہے تو پھر وہ ملٹیپل خاندان جوڑنے والوں کے خلاف ایک بڑی طاقت بنتا ہے اور پھر وہ بھی زیادتی کرتا ہے۔ اس سروائیونگ جنگ میں رشتوں میں اتنے شدید تناؤ آ چکے ہوتے ہیں کبھی بھی نہیں محبت اور اخلاص میں بدل سکتے ہیں، آپ اصل میں آج تک اس اصول کو ہی نہیں سمجھ سکے، کہ اس سے ہمیشہ فساد ہی پیدا ہوتا ہے آپ جبر سے ایسے خاندانی نظام کو قائم رکھنے کی بات کرتے ہیں اس میں جبر ہی ہوتا ہے اور جبر جب ٹوٹتا ہے تو وہ پھر صرف نفرت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ معاملات رکھتے ہیں۔ اس میں کبھی بچے ذلیل ہوتے ہیں، کبھی بہو ذلیل ہوتی ہے کبھی ساس ذلیل ہوتی ہے کبھی والدین ذلیل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی اصول قائم نہیں ہوتا۔ یا جبر ہوتا ہے یا طاقت ہوتی ہے۔

جن معاشروں کی تشکیل بنیادی طور پر درست ہوتی ہے وہاں پر اس طرح کے مسائل نہیں ہوتے، اور جن معاشروں میں بچے کے پیدا ہونے سے لے کر ان کی شادیوں کے فیصلے اور ان کے کھانے پینے کے فیصلے تک کوئی اور کرنا چاہتا ہے وہاں پر صرف ظلم ہی باقی رہتا ہے، والدین بچوں پر ظلم کرتے ہیں اور پھر جب موقع مل جائے تو بچے والدین پر ظلم کرتے ہیں۔ صرف ایک گردان ہوتی ہے حقوق حقوق لیکن اصل میں کوئی بھی کسی کے جائز سپیس کسی کی بات کسی کے حق کو نہیں مانتا۔ اس کے لیے ہمارے پاس صرف ایک فارمولا ہے، ہم حقوق کی گردان کرتے ہیں، دوسروں کی ذمہ داریوں کی گردان کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ایسا ہونا چاہیے، ویسا ہونا چاہیے، فلاں کو ایسا کرنا چاہیے، لیکن اصولی معاشرے کے قوانین و اسپیس نہیں طے کرتے۔

ایک اور المیہ یہ ہے، کہ جو گھر کا اصل کماو پوت ہوتا ہے اس پر ساری ذمہ داری ڈال کر باقی لوگ عیاشی مارتے ہیں، اور اگر وہ مزاحمت کرے تو اس کے اخلاص پر سوال اٹھا لیا جاتا ہے، کچھ دن پہلے ایک مفتی صاحب نے ایک سوال کیا تھا جس میں ایک خاندان کے بزرگ کی ایک دکان تھی ان کا بڑا بیٹا تھا جسے انہوں نے مجبوری میں اپنے کاروبار میں بٹھایا اور والد صاحب خود گلے پر کبھی کبھی چند گھنٹوں کے لیے آ کر بیٹھ جاتے تھے، بڑے بیٹے نے کاروبار جمایا، اپنی زندگی کے 20 سال لگا کر ایک دکان سے چار دکانیں بنائیں، اس کے تین چھوٹے بھائی اس دکان پر کبھی نہیں آئے، اس کاروبار سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا اور وہ پڑھتے رہے کوئی ڈاکٹر بنا اور کوئی انجینیئر، ایک دکان سے چار دکانیں بنانے والا ساری زندگی کماتا رہا مزدوری کرتا رہا اور ان سب کو پالتا رہا ان کی تعلیم دلواتا رہا، اب حصے بخرے کرنے کا ٹائم آیا تو سب کو برابر حصہ چاہئے، مفتی صاحب بھی فرماتے ہیں کہ جناب چونکہ پہلی دکان باپ کی تھی اسی سے ساری دکانیں بنی تو حصہ سب کو برابر ملے گا، کیا واقعی یہ انصاف ہے؟

دوسرا رول یہ ہے کہ اس خاندانی نظام میں جب باپ نے بیٹے کو کاروبار میں بٹھایا تو اس نے اس کی کوئی مقررہ تنخواہ نہیں طے کی جس نے اس کاروبار کو اتنا پھیلایا اس میں اس کا کوئی حصہ طے نہیں ہوا، باقی تین طفیلیے ہے، اس ایک فرد کی کمائی پر اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اپنی علیحدہ نوکریوں تک جاتے ہیں ساری زندگی مفت میں کھاتے ہیں اور اس کے بعد اب انہیں اس کی اس ساری محنت پر برابر کا حصہ چاہیے؟ واقعی یہ کوئی درست بات ہے؟ یہاں پر وہ تصور آ جاتا ہے کہ جناب اب پہلے جیسے اخلاق اور محبتیں نہیں رہیں، یعنی آپ دوسرے کی کمائی کھائیں اور یہ سمجھیں کہ وہ اخلاص سے آپ کو کما کر کھلائے؟ کوئی شخص آپ کے لیے قربانیاں دیتا رہے اور آپ اسے آئیڈیلائز کرتے رہیں اور جس دن وہ اپنی زندگی جینے کی کوشش کریں آپ کہیں کہ وہ خود غرض ہے؟

ہماری معاشرت کی سب سے بڑی بد قسمتی یہی ہے کہ ہمیں جینا ہی ایسا سکھایا گیا ہے، اور پھر ہم ایسے ہی جیتے ہیں، ماں بیٹی کی تربیت ہی اسی بنیاد پر کرتی ہے کہ اس نے جس گھر میں جانا ہے وہاں جا کر اس گھر کا کنٹرول حاصل کرنا ہے، ساس بہو اسی بنیاد پر گھر میں لانا چاہتی ہے کہ وہ آ کر اس سے کس طرح کام کروائے گی، کس طرح محدود رکھے گی تاکہ وہ اس کے بیٹے سے اپنی جائز خواہشات بھی نہ مان سکے۔

میاں بیوی کے تعلق کے پیار محبت یا کوئی جائز فرمائشوں پر بھی ماں کا اپروول چاہیے ہوتا ہے، آپ خود دیکھ لیں ہماری باشت کا ہر ناول یہی کہانی سمجھا رہا ہے، ہماری معاشرت میں بننے والا ہر ڈرامہ اور فلم ساس نند بہو خاندانی نظام کے اندر کے جھگڑے دکھا رہا ہے اور ہم اسے اسی بنیاد پر سلجھانا چاہتے ہیں کہ ایسے ہونا چاہیے، ویسے ہونا چاہیے، مگر ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا یہ جھگڑے ایسے ہی رہیں گے۔

آپ کو پتہ ہے؟ ہمارے ہاں ان سارے رشتوں میں سب سے آئیڈیل سچویشن کیا ہوتی ہے؟ سوچیں کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم آئیڈیل سچویشن اس کو مانتے ہیں جس میں کوئی شخص قربانی دے، یعنی ہم اچھائی اسے سمجھتے ہیں، جس میں کوئی انسان اپنی ذات کو مار دے، اپنے حقوق کو ختم کر دے، تو ہم اسے گلیمرائز کرتے ہیں، ہم ایک انسان سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ آئیڈیل ہے ہمارا؟ اک باپ ساری زندگی کما کما کے خاندان کے لیے مر جاتا ہے بڑھاپے میں یا 40 50 سال کی عمر میں اگر اس کی بیوی مر جائے تو وہ دوسری شادی نہیں کر سکتا، اس لیے نہیں کر سکتا کہ اسے قربانی دینی چاہیے، کیونکہ اس کی بیٹیوں کا لوگ مذاق اڑائیں گے، کہ اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی یا بیٹے بھی مذاق اڑائیں گے؟ یا ان کی جگ ہنسائی ہو جائے گی۔

جب باپ کی شادی نہیں ہونے دیتے تو کم عمری میں بیوہ ماؤں کا نکاح کون کرے گا، یہ تو ناممکن لگتا ہے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی جو خود جوان ہو اور اپنی ماں کی شادی کروانے کا سوچیں، انہیں ماں اور باپ سے بھی قربانیاں چاہیے ہوتی ہیں، انہیں ان کی ذاتی زندگی اور اسپیس کا کوئی خیال نہیں ان کی خواہشوں کا کوئی خیال نہیں ہوتا، اب کئی لوگ اسے بےغیرتی بھی بول سکتے ہیں، یا کوئی مذہبی بھی آ کر اس پر بات کر سکتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ ام سلمہ نے رسول اللہ ﷺ سے جب شادی کی تھی تو ان کا جوان بیٹا تھا۔ یورپ میں بھی یہ بات معیوب نہیں ہے، لیکن ہمارے بہترین خاندانی نظام میں یہ قابل قبول نہیں ہوتا۔

ہمیں بہنوں سے بھی قربانیاں چاہیے، انہیں ہماری منشا ہماری ضرورت کے مطابق شادیاں کرنی چاہیے، تاکہ خاندان اور برادری سے باہر آپ کی جائیداد نہ چلی جائے، انہیں اپنے گھر میں صوفے پر بھی آپ کی مرضی سے بیٹھنا چاہیے وہ ذرا پھیل کر یا آسان حالت میں بیٹھیں گی تو آپ کی عزت تار تار ہو جاتی ہے، آپ کو غیرت آتی ہے۔ ہمیں بھائیوں سے قربانیاں چاہیے کہ وہ بہنوں کی شادی تک اپنی شادی موقوف رکھیں، ہمیں ماں باپ سے قربانیاں چاہیے کہ انہوں نے چونکہ ایک بچے پیدا کر دیے ہیں اب وہ بچوں کے لیے ساری زندگی اپنی ساری خواہشیں مار دیں؟ چونکہ ماں باپ اپنی ساری خواہشیں قربان کر دیتے ہیں تو پھر وہ بچوں کے ساتھ بھی یہی کرتے ہیں وہ ان کی خواہشوں کو بھی جبر کی سولی پر چڑھانا چاہتے ہیں۔

کیا آپ کو نہیں لگتا یہ کیسی گھٹیا تہذیب ہے، جس میں ہم انسانوں کی جائز خواہشات کو روکنا چاہتے ہیں ان اصولوں کے لیے جو ہمیں بری لگتی ہیں یا معاشرہ ہمیں کیا کہے گا، کیونکہ پورا معاشرہ اسی تہذیب پر کھڑا ہے، ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ لوگ ہمارے لیے قربانیاں دیں اور ایسی تمام قربانیوں کو ہمارے ہاں بہترین عمل سمجھا جاتا ہے اور ہم اسے آئیڈیلائز کرتے ہیں۔

Check Also

Smog

By Zaigham Qadeer