آئی ایم ایف کی جی حضوری کو آمادہ ہماری اشرافیہ
بالآخر شوکت ترین صاحب نے اتوار کی شب جیو ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بے بسی سے اعتراف کرلیا ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ رویہ سخت گیر ہوچکا ہے۔ بنیادی وجہ اسکی امریکہ کا دبائو ہے۔ امریکی دبائو کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے افغانستان کا ذکر بھی کیا۔ یہ اقرار کرنے سے مگر اجتناب برتا کہ واشنگٹن کے مقتدر حلقے افغانستان سے امریکی افواج کے ذلت آمیز انخلاء کا ذمہ دار پاکستان کو بھی ٹھہرارہے ہیں۔
گزشہ برس کے اگست سے بارہا اس کالم میں یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا رہا ہوں کہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق امریکہ کے طاقت ور حلقے گدھے سے گرنے کا ذمہ دار کمہار کو ٹھہرارہے ہیں۔ سفارت کاری کا تقاضہ تھا کہ ہم خود کو افغانستان کا "ماما" بناکر پیش کرنے سے گریز کرتے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے مگر طالبان کی فاتحانہ انداز میں کابل واپسی کو "غلامی کی زنجیریں " توڑنا بتایا۔ ان ریمارکس کی واشنگٹن کے مقتدر حلقوں میں بہت تشہیر ہوئی۔ پاکستان کو افغانستان میں امریکہ کو درپیش ہوئی ذلت ورسوائی کا واحد ذمہ دار ثابت کرنے کی کاوشیں تیز تر ہوگئیں۔ ہمیں سزا دینے کو چند حلقے پاکستان کے اقتصادی مقاطعہ کی مہم بھی چلارہے ہیں۔
موجودہ امریکی صدر مگر ایک کائیاں سیاست دان ہے۔ وہ 36برس تک امریکی سینٹ کا رکن رہا۔ طویل برس ا س نے مذکورہ ایوان کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کی سربراہی میں بھی صرف کئے۔ اوبامہ کا آٹھ برسوں تک نائب صدر بھی رہا۔ اسامہ بن لادن کی فوجی آپریشن کے ذریعے ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد وہ افغانستان میں امریکی افواج کی مسلسل موجودگی کو بلاجواز سمجھتا رہا ہے۔ اوبامہ کو استقامت سے قائل کرتا رہا کہ نام نہاد دہشت گردی کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لئے امریکی افواج کو افغانستان میں مصروف رکھنے کے بجائے ڈرون طیاروں والی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے۔ اوبامہ نے اس سے اتفاق کرنے میں بہت دیر لگائی۔ امریکی صدر منتخب ہوجانے کے بعد بائیڈن کو اپنے خیالات بروئے کار لانے کا کامل اختیار مل گیا ہے۔
اگست کے وسط میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے دوران اس نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس کے دوران واضح الفاظ میں وہ اصرار کرتارہا کہ دنیا کی طاقت ور ترین معیشت ہوتے امریکہ دنیا کے دیگر ممالک کو اپنی خواہش کے مطابق پالیسیاں بنانے کو مجبور کرسکتا ہے۔ معاشی اثرورسوخ کو مہارت سے استعمال کرنے کے بجائے نائین الیون کے بعد وائٹ ہائوس میں بیٹھے صدور مگر امریکہ کی جنگی قوت استعمال کرنے کو ترجیح دیتے رہے۔ عراق اور افغانستان میں لیکن اس قوت کا بے دریغ استعمال بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرپایا۔
بائیڈن کا مذکورہ پریس کانفرنس سے خطاب واضح الفاظ میں عندیہ دے رہا تھا کہ شوروغل مچائے بغیر بائیڈن انتظامیہ پاکستان پر اقتصادی دبائو بڑھانا شروع ہوجائے گی۔ محض ایک بینکار ہوتے ہوئے شوکت ترین صاحب اس حقیقت کو بروقت دریافت نہیں کر پائے۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے آج سے چھ ماہ قبل نہایت اعتماد سے بلکہ ہمیں یقین دلاتے رہے کہ پاکستان کی حیران کن شرح نمو کو سراہتے ہوئے آئی ایم ایف پاکستان پر مزید ٹیکس لگانے کا دبائو نہیں ڈالے گا۔ ہمیں بجلی، گیس اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھانے کو بھی مجبور نہیں کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کے اندازے بالآخر خوش گمانیاں ہی ثابت ہوئے۔ ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لئے انہیں منی بجٹ تیار کرنا پڑا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقوم میں بھی بھاری بھر کم کٹوتی لگانا پڑی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بھی مسلسل بڑھتے رہیں گے۔ یہ سب اقدامات وطن عزیز میں میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی کے حامل متوسط طبقات کی زندگی اجیرن بنادیں گے۔
حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج مگر ہماری مشکلات کے ادراک کو بھی آمادہ نہیں۔ ہمیں مسلسل یاد دلایا جارہا ہے کہ گزرے برس کئی نقدآور فصلوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ سے ہمارے دیہات میں خوش حالی نمودار ہوئی۔ اس کا ٹھوس اظہار موٹرسائیکلوں کی ریکارڈ خریداری کے ذریعے ہوا ہے۔ شہری طبقات نے بھی ریکارڈ تعداد میں نئی گاڑیاں خریدی ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں کے مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا ہوتا ہے۔ خوش حالی کی جو تصویر حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج دکھارہی ہے وہ منی بجٹ کے ذریعے لاگو کئے اقدامات کوبھی جائز ٹھہراتی ہے۔
حکومتی ترجمانوں کے علاوہ ہمارے ہاں جناتی انگریزی زبان میں معیشت کے بارے میں لکھنے والے "ماہرین" کا ایک لشکر بھی ہے۔ ان کی اکثریت عالمی اداروں کے لئے اعدادوشمار کی بنیاد پر رپورٹیں تیار کرتی ہے۔ آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کو وہ "اصلاحات" پکارتے ہیں۔ مصر رہتے ہیں کہ جدید ریاست دستاویزی معیشت کا تقاضہ کرتی ہے۔ جی ڈی پی کی یا ہماری نظر آنے والی اجتماعی پیداواریا معاشی ماحول کی مناسبت سے ان کی جانب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی وصولی پر بھی زور دیا جاتا ہے۔
حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج اور جناتی انگریزی میں معاشی موضوعات پر لکھنے والے "ماہرین" کے لشکر کی جانب سے فروغ دئیے بیانیے کے ہوتے ہوئے میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے پاکستانیوں کی حقیقی مشکلات لوگوں کے روبرو لانے والی آوازیں کہیں سنائی نہیں دے رہیں۔ جمہوریت کے مجھ جیسے سادہ لوح حامی یہ توقع باندھتے ہیں کہ میرے اور آپ کے ووٹ سے اسمبلیوں میں پہنچے سیاست دان ہمارے مسائل کا حل ڈھونڈ نہ پائیں تب بھی انہیں کم از کم اجاگر کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔ بہت دنوں کے مشاہدے کے بعد دریافت میں نے یہ کیا ہے کہ اراکین پارلیمان کا تعلق خواہ وہ حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوں یا اپوزیشن جماعتوں سے بالآخر حکمران اشرافیہ ہی سے ہے۔ مہنگائی ان کا مسئلہ نہیں۔ آئندہ حکومت بنانے کی خواہش میں مبتلا ہوئے اپوزیشن اراکین بھی آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ناراض کرنے کی جرات سے محروم ہوچکے ہیں۔
اسی باعث گزشتہ جمعرات کے دن جب وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے روبرو منی بجٹ رکھا تو اس کے خلاف مزاحمت کو توانا تر بنانے کے لئے شہبازشریف اور بلاول بھٹوزرداری ایوان میں موجود ہی نہیں تھے۔ ہمارے مقتدر حلقے بھی سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ ریاست کو توانا تر بنانے کے لئے آئی ایم ایف کی ان شرائط کو بلاچوں وچرا تسلیم کرلیا جائے جوزیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا تقاضہ کررہی ہیں۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ آئی ایم ایف کی جی حضوری کو دل وجان سے آمادہ ہے۔ سلطانوں کی بے بس ولاچار رعایا ہوتے ہوئے ہمیں مہنگائی کی نئی اور شدید لہر کو سرجھکاکر برداشت کرنا ہوگا۔