Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Imran Khan Ko Kisi Aur Jail Muntaqil Karne Ki Taqviat Pati Soch

Imran Khan Ko Kisi Aur Jail Muntaqil Karne Ki Taqviat Pati Soch

عمران خاں کو کسی اور جیل منتقل کرنے کی تقویت پاتی سوچ

موروثی سیاست کو تحریک انصاف چاہے جتنا بھی برا کہہ لے حقیقت مگر یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ جماعت بتدریج اپنے بانی کی بہنوں کی تیار کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہوئی نظر آرہی ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ محترمہ علیمہ خان کی رہ نمائی میں تینوں بہنیں اپنے بھائی کے ساتھ ملاقاتوں کے حوالے سے ایک نیا بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب رہی ہیں۔ ہر منگل کے روز پہلے علیمہ خان اور بعدازاں ان کی تمام بہنیں اڈیالہ جیل میں مقید اپنے بھائی سے ملاقات کے لئے راولپنڈی پہنچ جاتیں۔ وہاں لگے پولیس ناکوں سے گزرنا مشکل ہونا شروع ہوگیا تو بہنوں نے ملاقات کے لئے مختص وقت گزرجانے کے بعدبھی اڈیالہ جیل پر دھرنا دینا شر وع کردیا۔ ابتداََ پولیس اندھیرا ہوجانے کے بعد بہنوں کو پولیس وین میں ڈال کر اسلام آباد کو لاہور سے موٹروے کے ذریعے ملانے والے کسی مقام پر(عموماََ چکری کے قریب) اتار دیتی۔

بہنیں اپنی ضد پر اس کے باوجود قائم رہیں تو پولیس نے روایتی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے بہنوں کی "ڈھال" بنے تحریک انصاف کے کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مبینہ طورپر چند روز قبل عمران خان کی ایک بہن کو بھی "جان بوجھ کر " ذلت آمیز انداز میں گھسیٹا گیا۔ غالباََ ان کے ساتھ ہوئے سلوک کے بعد حکومتی بندوبست کسی ایک بہن کی بھائی کے ساتھ ملاقات کروانے کو آمادہ ہوا۔ ملاقات کی اجازت دیتے ہوئے یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھی گئی کہ افغان اور بھارتی میڈیا نہایت منظم انداز میں یہ فیک نیوز پھیلائے چلے جارہا تھا کہ بانی تحریک انصاف کو قید تنہائی میں سنگین طبی مسائل لاحق ہوچکے ہیں۔ ان مسائل کے تناظر میں ایسی افواہیں بھی پھیلائی گئیں جن کا ذکر اس کالم میں کرنے سے مجھے گھن آتی ہے۔

سیاسی امور کے بارے میں دو سے زیادہ دہائیاں صرف کرنے کی وجہ سے جمع ہوئے تجربے کی بنیاد پر مجھے شبہ ہے کہ گزشتہ ہفتے عمران خان کی ایک بہن سے جو ملاقات کروائی گئی وہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان بیک ڈور رابطوں کی بناء پر ممکن ہوئی۔ اس ملاقات کی بدولت بہن کی زبانی وہ فیک نیوز موثر انداز میں جھٹلادی گئی جو عمران خان کے "طبی مسائل"کو ہولناک انداز میں پیش کررہی تھی۔ اس کے بعد مگر سکائی نیوز کی لندن میں مقیم افغان نژاد اینکر یلدا حکیم نے ایک بھرپور شو کیا۔ اس میں علیمہ خان کی شرکت اور ان کے بیان کردہ خیالات نے ریاستی اداروں کو مضطرب کیا۔ ان کے دل میں ابھرے اضطراب کو عمران خان کے نام سے چلائے سوشل میڈیا کے ایکس پلیٹ فارم پر آئے ایک پیغام نے طیش میں بدل دیا۔ انگریزی محاورے والے Enough is Enoughیا "بہت ہوگیا" والا موڈ ہمیں جمعہ کے روز ہوئی پریس کانفرنس میں بہت شدت سے نظر آیا۔

مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد لازمی تھا کہ تحریک انصاف کے تمام رہ نما یکجا ہوکر طویل مشاورت کے ذریعے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ عمران خان کے لگائے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے البتہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان ا کرم راجہ کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس کی جس میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے سے گریز ہوا۔ مذکورہ پریس کانفرنس کے ایک دن بعد خیبرپختونخواہ کے جواں سال وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے پشاور کے ایک پوش علاقے میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ وہاں ہوئی ایک دو تقاریر کے سوا حیات آباد میں ہوئے جلسے نے تخت یا تختہ والا پیغام دینے سے گریز کیا۔

تحریک انصاف کے رہ نمائوں کی جانب سے ہوئی پریس کانفرنس اور پشاور کے حیات آباد والے جلسے کے ذریعے اشتعال سے دانستہ نظر آتا اجتناب حکومت اور تحریک انصاف کے مابین کسی نئی انڈرسٹینڈنگ کی راہ نکال سکتا تھا۔ منگل کے دن مگر تحریک انصاف کے قائد کی بہنیں اڈیالہ روڈ پہنچ گئیں۔ پولیس نے انہیں جیل کی جانب بڑھنے سے روک دیا تو وہ ایک مقام پر دھرنا دے کر بیٹھ گئیں۔ ان کی وہاں موجودگی کا سوشل میڈیا کی بدولت علم ہونے کے بعد تحریک انصاف کے جذباتی اراکین بھی وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے۔

منگل کی رات نو بجے کے قریب اڈیالہ روڈ پر موجود صحافیوں اور یوٹیوبرز کی زبانی علم ہوا کہ پولیس اڈیالہ روڈ پر جمع ہوئے ہجوم کو بزور قوت منتشر کرنے کا ارادہ بناچکی ہے۔ میری ناقص رائے میں علیمہ خان صاحبہ کو پولیس کے ارادوں کا علم ہوجانے کے بعد اپنے کارکنوں کے تحفظ کی فکر کرنا چاہیے تھی۔ جیل کے پھاٹک سورج غروب ہوجانے کے بعد فقط اسی صورت ہی کھلوائے جاسکتے ہیں اگر وہاں لاکھوں پر مشتمل ہجوم جمع ہوجائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے روبرو بے بس نظر آئیں۔

منگل کی رات اڈیالہ روڈ پر ایسا ہجوم ہرگز موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود ضد کا انتخاب ہوا اور پولیس نے جسم منجمد کرتی سردی میں ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ سے مظاہرین کو منتشر کردیا۔ محترمہ علیمہ خان صاحبہ کی جانب سے اپنائی حکمت عملی کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود مجھے سوشل میڈیا پر مظاہرین کو منتشر کرنے والی تصاویر کو دیکھ کر دُکھ ہوا۔ ہم دو ٹکے کے صحافیوں کے دلوں میں ابھرے دُکھ کی مگر حکمران اشرافیہ کو خبر نہیں ملتی۔ وہ معاملات کو ایک خاص نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ اڈیالہ روڈ پر محاذ آرائی کی فضا بنائے ہوئے محترمہ علیمہ خان صاحبہ کو یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا چاہیے تھی کہ ان کی بہن عظمیٰ خان کی گزشتہ ہفتے اپنے بھائی کے ساتھ ملاقات کے بعد سے جو ماحول بنا ہے اس کی تلخی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاست کے چند طاقتور حلقے نہایت سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ امن وامان یقینی بنانے کے نام پر عمران خان کو اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کردیا جائے تاکہ ہفتے کے ہر منگل کے دن ہوئے "تماشے" سے نجات مل جائے۔

مجھے خدشہ ہے کہ منگل کی رات اڈیالہ روڈ پر رونما ہوئے مناظر عمران خان کو کسی اور جیل منتقل کرنے والی سوچ کو تقویت پہنچائیں گے۔ فرض کیا ایسا ہوگیا تو بانی تحریک انصاف کے کئی پرخلوص اور دیرینہ حامی اس کا ذمہ دار محترمہ علیمہ خان کو ٹھہرائیں گے۔ جیل میں قید سیاسی رہ نمائوں کے قریبی عزیز واقارب کے جذبات سیاسی محاذ پر اٹھے معاملات کو ہماری تاریخ میں ہمیشہ مزید الجھاتے ہی رہے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Merit Ko Chatna Hai?

By Rauf Klasra