Wednesday, 17 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Javed Chaudhry Baad Az Retirement

Javed Chaudhry Baad Az Retirement

جاوید چوہدری بعد از ریٹائرمنٹ

جاوید چوہدری ایکسپریس نیوز سے رواں سال پانچ نومبر کو رضاکارانہ ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ اپنی ویب سائٹ پر سولہ کالم لکھ چکے ہیں اور یہ تمام کالم سیاست کے موضوع پر ہیں اور ان میں موٹیوشنل اسپیکرز جو کہ موصوف کی پہچان ہے، کا عنصر معدوم ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ چوہدری جی تقریباً اٹھارہ برس تک ایک موٹیویشنل کالم نگار کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔ ان کے کالموں کا محور فرد، اس کی نفسیات، اس کی کمزوریاں، اس کی امیدیں اور زندگی کو بہتر بنانے کے نسخے ہوا کرتے تھے۔ سیاست پر ان کے کالم پہلے بھی آتے تھے مگر خال خال اور شاید محض ذائقہ بدلی کے لیے ہی یہ خال خال ہوتا رہا ہو!

ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد موضوعات کا یہ یکطرفہ انتخاب محض اتفاق نہیں لگتا۔ چوہدری جی کے قاری کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال انگڑائیاں لیتا ہے کہ برسوں تک جو قلم زندگی سنوارنے کی بات کرتا رہا ہو وہ اچانک اقتدار، طاقت اور سیاسی کشمکش پر کیوں ٹھہر گیا۔ یہ تبدیلی صرف موضوع کی نہیں بلکہ اس شناخت کی بھی ہے جو برسوں میں بنی، پروان چڑھی اور مضبوط ہوئی۔ اٹھارہ سالہ شناخت کا یکدم خاتمہ کرکے ایک نئی شناخت بطور سیاسی قلم کار میں کیا مصلحت ہوگی، یہ تو جاوید چوہدری ہی بتا سکتے ہیں، ہم تو صرف قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں۔

جب جاوید چوہدری معروف ہی بطور موٹیویشنل کالم نگار کے تھے تو راتوں رات سیاسی موضوعات و تجزیہ نگاری کی طرف رجوع کرنا ایسا ہی نہیں لگتا کہ جیسے مزدور اٹھارہ سال تک مسالہ بناتا رہے، اینٹیں اٹھا اٹھا کر مستری کو پکڑاتا رہے، دوسری منزل بنانے کے لیے چھت پراینٹیں بذیعہ سیڑھیاں پہنچاتا رہے یا نیچے سے ہی اوپر کیچ کرواتا رہے اور پھر ایک دن اچانک کانڈی پکڑ کر مستری بن بیٹھے کہ دیہاڑی زیادہ ملے گی اور افسری بھی قائم رہے گی، ٹھیکہ داری بھی شروع ہو جائے گی، کم اجرت پر مزدوروں کی بھرتی کا اختیار بھی مل جائے گا؟ اس کا جواب سروے سے ہی لگایا جاتا سکتا ہے کہ جاوید چوہدری کے قارئین کی تعداد کم ہوئی ہے یا بڑھی ہے، پبلک کمنٹس میں سستی دیکھنے میں آئی ہے یا مزید جوش و خروش، ویورشپ میں کمی آئی ہے یا وادھا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس سب کے باجود عین ممکن ہے کہ جاوید چوہدری بھی ہماری طرح اس بات کے قائل ہوں کہ بقول شاعر:

ایک دل میں مِری یاد اگر زندہ ہے
کیا ضروری ہے کہ چرچا رہے گھر گھر اپنا

چونکہ ہم ڈنڈی مارنے کے کبھی بھی قائل نہیں رہے اور تصویر کے تمام ممکنہ رُخوں کو سامنے لانے کی سعی کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ چوہدری جی نے "غلامی" سے آزادی حاصل کرنے کے لیے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لی ہو کیونکہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ کسی ادارے میں رہتے ہوئے لکھنے والا غیر تحریری حدود میں بندھا رہتا ہے۔ ایڈیٹوریل پالیسی، قانونی احتیاط اور ناپسندیدگی کا خدشہ تحریر کو محتاط بنا دیتا ہے۔ جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد قلم کی آزادی ایک اہم عامل بن کر سامنے آتی ہے۔

جاوید چوہدری کو ذاتی ویب سائٹ پر کسی قسم کے دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، یہاں وہ بات کہی جا سکتی ہے جو برسوں دل میں جمع ہوتی رہی ہو، یہاں جنوں کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پھر بھی احتیاط کا دامن آج کہیں زیادہ ضروری ہے کہ پیکا ایکٹ نے اپنی دھونس جمائی ہوئی ہو۔ لہذا یہ قیاس رد نہیں کیا جا سکتا کہ چوہدری جی نے شاید سیاست کو مرکزی موضوع بنانے کے لیے ہی آزادی حاصل کی ہے۔ گویا چوہدری صاحب کو علم ہوگیا ہو کہ بقول عبدالحمید عدم:

خِرد جو کچھ بھی کرتی ہے حدودِ رسم کے اندر
جنوں جو کچھ بھی کرتا ہے بِلادستور کرتا ہے

تیسرا رُخ یہ ہے کہ جب فرد کی اصلاح پر طویل عرصے تک لکھا جائے اور معاشرہ مجموعی طور پر مزید بگڑتا دکھائی دے تو توجہ لازماً اس نظام کی طرف جاتی ہے جو اس بگاڑ کی جڑ میں موجود ہوتا ہے۔ معاشی دباؤ، ذہنی بے چینی، اخلاقی زوال اور سماجی انتشار اکثر سیاسی فیصلوں کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے توجاوید چوہدری کا موٹیویشن سے سیاست تک کا سفر اچانک نہیں بلکہ منطقی بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

اب سوال یہ کہ سیاسی تجزیہ نگاری کے سفر میں کامیابی کا امکان کس قدر ہے۔ عمومی طور پر ہمارے معاشرہ میں موٹیویشنل لکھاری کو قاری رہنمائی دینے والے کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ سیاسی لکھاری کو فریق سمجھ لیا جاتا ہے اوریہاں غیر جانبداری کا شبہ بھی مخالفت میں بدل جاتا ہے۔ اسی نکتہ سے چوہدری جی کی زمائش شروع ہوتی ہے۔ اگر تحریر جذباتی نعروں، وقتی مقبولیت یا کسی ایک سیاسی بیانیے کے زیرِ اثر آئی تو برسوں میں بنی ہوئی سنجیدہ ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے چوہدری صاحب "لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام"۔

بہرحال اگر جاوید چوہدری اپنی سیاسی کالم نگاری بھی اسی نفسیاتی، سماجی اور فکری گہرائی کے ساتھ لکھتے رہیں جس گہرائی کے ساتھ انہوں نے اٹھارہ سال تک زندگی کے مسائل پر قلم اٹھایا تو موٹیویشن سے سیاسی تجزیہ نگاری کی تبدیلی نقصان کے بجائے توسیع کا رُوپ دھار سکتی ہے۔ ضرورت صرف کانڈی پکڑنے کی ہی نہیں بلکہ دیوار سیدھی رکھنے کی ہے۔

چوہدری جی کے لیے ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ سیاست پر لکھتے ہوئے وہ اپنی اصل طاقت کو نہ چھوڑیں۔ سیاست کو اس طرح نہ لکھیں کہ وہ محض اخلاقی نصیحت یا حوصلہ افزا تقریر بن کر رہ جائے اور نہ ہی اسے صرف روزمرہ کی سیاسی بیان بازی تک محدود کریں۔ بہتر یہی ہے کہ وہ سیاست کو انسان، اس کے رویوں اور نظام کے اثرات کے تناظر میں دیکھیں۔ اگر سیاسی کالم میں انسان اور اس کی نفسیات غائب ہوگئیں تو تحریر نعرہ بن جائے گی اور اگر ہر مسئلے کو صرف اخلاقی کمزوری کہہ کر ٹال دیا گیا تو سیاست کا اصل چہرہ اوجھل ہو جائے گا۔ توازن برقرار رہا تو یہی مرحلہ آپ کے قلم کا سب سے مضبوط مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے۔

مُکدی گل، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست پر مسلسل لکھنا جاوید چوہدری کے لیے آسان راستہ نہیں ہوگا کیونکہ یہاں داد کم اور اختلاف زیادہ ملتا ہے۔ اگر وہ اس میدان میں بھی اسی توازن، فکری سنجیدگی اور نفسیاتی گہرائی کو برقرار رکھ پائے جس نے انہیں موٹیویشنل لکھاری کے طور پر شناخت دی تو یہ تبدیلی ان کے قد میں کمی کے بجائے اضافہ کرے گی۔ بصورتِ دیگر یہ تاثر مضبوط ہوتا چلا جائے گا کہ ایک کامیاب موٹیویشنل کالم نگار نے اپنی پہچان داؤ پر لگا دی۔ اس لیے آج سوال یہ نہیں کہ انہوں نے سیاست پر لکھنا کیوں شروع کیا بلکہ یہ ہے کہ وہ اسے کس سطح پر لے جا پاتے ہیں۔

کر سکے تو کر سفر، کُہر ہے بہت مگر
راستوں کے درمیاں دُھند کچھ چَھٹی بھی ہے

Check Also

Puttar Sachiyan Nu Mirchan

By Shair Khan