Moscow Se Makka (4)
ماسکو سے مکہ (4)

مغرب کی نماز کے بعد میں اور جمشید صافی کھانا کھانے کی غرض سے صبح جس طرف گئے تھے اسی جانب نکل گئے تھے۔ وہاں ہمیں ایک مناسب پاکستانی ریستوران نظر آ گیا تھا، جہاں ہم نے چکنائی میں تر سالن اور تندور سے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں کھائی تھیں۔
پھر عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جا پہنچے تھے۔ حریص عبادت جمشید کی آج کی خواہش مسجد نبوی کی صف اوّل میں نماز پڑھنا تھی۔ میں نے کسی طرح وہاں جگہ بنا لی تھی اور پھر صافی کو بھی اشارے سے بلا لیا تھا، دونوں کے لیے جگہ بن گئی تھی۔
ایک بوڑھا، ٹھگنا شخص ہمارے نزدیک اپنا رومال رکھ کر شیلفوں میں لگے قرآنی نسخوں کو ترتیب دیتا پھر رہا تھا۔ ایک فلسطینی اس کے رومال کو تھوڑا سا سرکا کر وہاں بیٹھ گیا۔ پھر کیا تھا، موصوف آئے اور اردو میں اسے بری طرح ڈانٹنے لگے کہ جب رومال پڑا ہوا تھا تو تم یہاں بیٹھے کیوں۔ فلسطینی اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا لیکن اس کو اگر سمجھ آ بھی رہی تھی تو وہ اس کی نہیں سن رہا تھا۔ مجھے دخل درمعقولات کرنی پڑی تھی اور میں نے ان صاحب کو جو پختون خواہ کے کسی چھوٹے شہر سے تھے بالآخر رام کر لیا تھا۔ یہ صاحب کسی زمانے میں پرائمری سکول ٹیچر تھے۔ ان کے بیٹے مکہ اور ملتان کے دینی مدارس میں پڑھا رہے تھے۔ یہ گذشتہ آٹھ سال سے مدینے میں ہیں۔ اپنے طور پر مسجد
نبوی میں دھرے قرآن کے نسخوں کو ترتیب سے رکھتے رہتے ییں۔
مقامی عرب اور پاکستانی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد نبوی میں گزرتا ہے اور کھانے مختلف پاکستانی، ہوٹلوں، پہ بندھے ہوئے ہیں۔ موصوف کے مزاج سے البتہ پرائمری سکول کی استادی نہیں گئی تھی۔ سبھوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن بہرحال تھے دلچسپ آدمی اور خیر سے بزلہ سنج بھی۔ کہنے لگے نماز کے دوران آدمی سب کچھ کر لے، چاہے تو آنکھیں بھی بند کر لے لیکن اللہ سے اپنا چہرہ تو نہ چھپائے۔ میں نے پوچھا خانصاحب، وہ کون ہے جو اللہ سے اپنا چہرہ چھپاتا ہے۔ بولے جیسے اس نے کیا ہوا ہے۔ ایک انڈونیشیائی نے میڈیکل ماسک باندھا ہوا تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے سب کے سب ماسک باندھ کر آئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہیں سے کوئی وائرس لے کر نکلے تھے۔
نماز کے دوران نمازیوں کی تین چوتھائی تعداد کھانس رہی ہوتی تھی۔ کچھ تربیت کا فقدان، کچھ عبادت کا پاس، کھانستے ہوئے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھتا تھا یوں یہ مرض تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں فلو سے بہت جلدی متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میرا کام ہوگیا ہے۔ ویسے بھی جانے سے پہلے ہماری کوئی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں بہت ٹھنڈی مسجد نبوی سے براہ راست خاصے گرم صحن میں نکل آتے تھے۔
وائرس اور درجہ حرارت کی فوری اور مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے عشاء کے بعد مجھے نزلہ ہو چکا تھا اور بدن ٹوٹنے لگا تھا۔ میں کمرے میں آ کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لیٹ گیا تھا۔ اب میرے نخرے بھلا کون برداشت کرتا۔ میں مکمل اندھیرے اور خاموشی کے بغیر سو ہی نہیں سکتا لیکن اس رات گذشتہ رات کے رت جگے کی وجہ سے میں انٹا غفیل ہوگیا تھا۔ صبح انکل داؤد نے نماز فجر کے لیے اٹھایا تھا اور میں وضو کرکے ان کے ہمراہ مسجد نبوی چلا گیا تھا۔ وہاں اتفاقا" جمشید سے ملاقات ہوگئی تھی۔ مجھ سے بڑے خفا تھے کہ تم رات بھر خراٹے لیتے رہے ہو۔ میں سو نہیں سکا اور رات دو بجے ہی مسجد نبوی میں آ گیا تھا۔ میں نے معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ میں مریض ہوں۔
نماز کے بعد میں نے انہیں اور انکل داؤد کو ناشتہ کرنے کی تجویز دی تھی۔ انکل تو واپس چلے گئے تھے لیکن جمشید میرے ساتھ اسی ہوٹل پہنچا تھا جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہاں گرم گرم پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ میں نے سبزی کے ساتھ پراٹھا مانگا تھا لیکن جمشید نے چائے کے ساتھ پراٹھے کھائے تھے اور بتایا تھا کہ کابل میں ان کے میڈیسن کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ افغانیوں کی بڑی آنت فی الواقعی دوسرے انسانوں سے کم از کم ایک فٹ بڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسروں کی نسبت دوگنی روٹیاں کھاتے ہیں۔ مجھے یہ بات مذاق لگی تھی لیکن وہ اس کی صداقت پہ مصر تھا۔
مدینہ میں کاروبار حیات نماز فجر کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اب تو ویسے بھی دن روشن ہو چکا تھا۔ جمشید ایک بار پھر خریداری کے چکر میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، بہتر ہے یہیں سے لے لی جائیں۔ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ حج کوئی شاپنگ ٹور نہیں جیسے لوگوں نے سمجھ لیا ہوا ہے۔
بہر حال صافی نے کوئی دس کلو کھجوریں خرید لی تھیں۔ ہم ہوٹل میں واپس آ گئے تھے۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ لگتا تھا جیسے بخار ہوگیا تھا۔ پہلے روس فون کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ بہت مہنگا ہے پھر پاکستان فون کیا تھا جو بہت سستا تھا اس لیے اپنی پریشانی اور تاثّرات میں پاکستان میں اپنے بچوں کی ماں اور اچھی دوست ڈاکٹر میمونہ کو فون کرکے بانٹتا رہتا تھا۔
طبیعت کی کسالت کے باوجود میں باقی نمازیں پڑھنے مسجد نبوی بی گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے احاطے سے نکل کر بغلی راستہ عبور کرکے سڑک پہ نکلا تھا تو ایک منظر دیکھ کر طبیعت اوبھ گئی تھی۔ وہی بیچاری عورتیں جو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھیاں کھینچ کر مشقت کرتی ہیں ان کی ریڑھیاں نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل کمیٹی کے بنگلہ دیشی و ہندوستانی اہلکار اٹھا اٹھا کر ٹرک میں ڈال رہے تھے۔ ایک سعودی عمّال ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے ہوئے ان پر بری طرح برس رہا تھا۔ جو بیچاریاں ریڑھیاں کھینچتے ہوئےبھاگ کر اپنا سامان بچانے کی کوشش کر رہی تھیں، سعودی شکرا چیخ کر ماتحتوں کو حکم دیتا ہے کہ دوڑو اور اس کا مال ضبط کرو۔ میری طرح دو ایک اور عازمین جب یہ اذیت ناک تماشا دیکھ کر رکے تو وہ عمّال ہم پہ بھی برسنے لگا۔ اس کی معاونت کرنے والے پولیس اہلکار نے "یاحجّی، یاللہ" کہہ کے ہمیں دھتکار کر آنکھیں چرا کر نکل جانے کو کہا تھا۔ اوہ میرے خدا، غریب تیرے نبی کے شہر میں بھی اسی طرح پریشان ہے جس طرح کسی بے برکت شہر میں۔
طبیعت ویسے ہی خراب تھی۔ برقعہ پوش مسلمان محنت کش خواتین کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کے اہلکاروں کے اس غیر انسانی رویے کو دیکھ کر کسلمندی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ہوٹل میں آ کر بستر پہ دراز ہوگیا تھا، آنکھوں پہ اپنی پسندیدہ سیاہ پٹی باندھ لی تھی۔ سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی تھی۔ انکل داؤد نے بیدار کیا تھا کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے۔ وضو کیا تھا اور سوئے مسجد چل پڑے تھے۔
حدت کم ہوتی ہوئی دھوپ میں بے چینی کی بجائے سکون مل رہا تھا خاص طور پہ مسجد نبوی کے طویل احاطے کو عبور کرتے ہوئے دل کر رہا تھا کہ دھوپ میں ہی کھڑا رہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بخار بھی ہو رہا تھا۔ میں نے اور جمشید صافی نے طے کیا تھا کہ عصر کے بعد جنت البقیع جائیں گے۔ جنت البقیع نام کا یہ قبرستان مسجد نبوی کے اس پار تھا۔ نماز ظہر کے بعد واپسی سے پہلے میں اس کے کنارے تک گیا تھا لیکن معلوم ہوا تھا کہ اسے لوگوں کے لیے عصر کے بعد کھولا جاتا ہے۔ جنت البقیع کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجھے وہاں اس لیے بھی جانا تھا کہ میرے ایک بھتیجے کی اہلیہ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہاں جا کر حضرت فاطمۃالزہراؓ کو اس کا سلام پہنچا دوں۔
یوں میں اور جمشید طے کردہ مقام پر ملے تھے اور جا کر جنت البقیع میں داخل ہو گئے تھے۔ یہ ایک وسیع و عریض میدان تھا جس کے بیچ میں سیمنٹ سے گزرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ زمین کے مختلف سپاٹ قطعات میں بے نام پتھر دھرے تھے جو قبروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام یا تابعین عظام کی قبریں کہاں تھیں۔ کچھ قبریں پرانی تھیں، ان کے پاس سعودی دینی مدرسے کے طلباء یہ کہنے کے لیے کھڑے تھے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ قبر کس کی ہے لیکن چونکہ پرانی قبر ہے اس لیے بہت پہلے کے کسی شخص کی ہوگی۔
میں نے ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر سب کے لیے بشمول صحابہ کرام و اہلبیت کے لیے فاتحہ پڑھ دی تھی اور تھوڑی سی بلند آواز میں بی بی فاطمہ کو شبنم کا سلام بھی پہنچا دیا تھا۔ سعودی حکام نے یہ خوب کیا ہوا ہے ورنہ لاکھوں عقیدت مند مسلمان نہ جانے کہاں کہاں دھجیاں نہ باندھ دیتے، نامے نہ آڑس دیتے، دانے نہ بکھیر دیتے اور بس چلتا تو دھمال ڈالنے سے بھی باز نہ آتے۔ ان حرکتوں کا ایک نمونہ مجھے اگلے روز فجر کی نماز سے پہلے دکھائی دیا تھا۔ جنت البقیع کو چند سالوں کے بعد تازہ کر دیا جاتا ہے اور اس میں نئے لوگ دفن ہوتے رہتے ہیں۔

