عمران، شیخ مجیب بن سکتا ہے؟

میں آج سولہ دسمبر کی شام بیٹھا یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لئے یہ دن عشروں سے دکھ اور تکلیف کا باعث رہا ہے جب ہم نے قائد کا دیا ہوا آدھا پاکستان گنوا دیا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس سانحے اور نقصان کے ذمے دار ہم سب تھے یعنی سیاستدان بھی اورفوج بھی جو اس وقت اقتدار میں تھی۔ سیاست بظاہر شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی مگر ڈوریاں یحییٰ خان کے ہاتھ میں تھیں اور وہ ایک ایسا جرنیل تھا جس کے کمرے سے جنرل رانیاں نکلتی تھیں اور جب وہ بات کرتا تھا تو اس کے منہ سے الفاظ کم اور تھوک زیادہ نکلتا تھا۔
شیخ مجیب سو فیصد بھارتی ایجنٹ کا کردارادا کر رہا تھا۔ اسے ساٹھ کی دہائی کے وسط کے بعد اگرتلہ سازش کیس میں دھر لیا گیا تھا مگر اس وقت اس کے سخت مخالف ذوالفقار علی بھٹو سمیت تمام سیاستدان اس کی رہائی کے حق میں ہو گئے تھے۔ اگرتلہ سازش کیس پاکستان کو توڑنے کی سازش کے خلاف مقدمہ تھا اور اس مقدمے میں سیاستدانوں اورحکومت کے ایک پلیٹ فارم پر ہونے کی وجہ سے عدلیہ نے بھی اسے رہائی اور بریت دے دی تھی جس کے بعد اس کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ آج ایک مرتبہ پھر عمران خان، شیخ مجیب بننے کی پوزیشن میں ہے، وہ پاکستان توڑ سکتا ہے جس کی وہ پوری کوشش کر رہا ہے مگر میرا تجزیہ بھی ہے اور ایمان بھی کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا اوراس کے لئے میرے پاس دس جواب موجود ہیں۔ پہلا جواب ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستانوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور بیچ میں بھارت جیسا دشمن ملک موجود تھا۔ یقینی طور پر ہم ایک ایسا ملک تھے جس کی دنیا کے نقشے پر کوئی دوسری نظیر نہیں تھی۔ ہماری زبان، ثقافت، معیشت اور مفادات سب الگ تھے سو وہ جغرافیائی فاصلہ بڑی کمزوری بن گیا۔
دوسرا جواب ہے کہ شیخ مجیب کے سہولت کار اس وقت کے سیاستدان اور عدالتیں بن گئی تھیں۔ اس وقت مغربی پاکستان کا سیاستدان بھی ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا رہا تھا مگر اب ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ عمران خان کے مقابلے میں جتنے بھی سیاستدان ہیں وہ پاکستان زندہ باد اور پاکستان کھپے کانعرہ لگاتے ہیں اور الحمد للہ، وہ عدلیہ بھی نہیں رہی جس نے شیخ مجیب کو رہا کیا اور عمران خان کو گڈ ٹو سی یو کہتی تھی۔
تیسرا جواب ہے کہ اس وقت فوج کی قیادت جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی کے پاس تھی اور آج فوج کی قیادت جنرل عاصم منیر کے ہاتھ میں ہے، جو حافظ قرآن ہیں اور جنرل یحییٰ سے بالکل مختلف۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے الگ ہونے کا سب سے بڑا فیکٹر بھارت کی ننگی اور کھلی جارحیت، فوج کشی تھی مگرآج بھارت اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنا ایک بھی فوجی پاکستان کی جغرافیائی حدود میں داخل کرے اور وہ زندہ واپس چلا جائے۔ بھارت کو ابھی معرکہ حق میں اپنی ذلت آمیز شکست کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے۔
پانچواں جواب ہے کہ اس وقت جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس کا جواب نہیں تھا مگر آج اگر انٹرنیٹ اور اے آئی، عمران خان کو پروپیگنڈے کی سہولت دیتے ہیں وہ محب وطن حلقوں کو بھی اتنا ہی موقع دیتے ہیں کہ پروپیگنڈے کا توڑ کیا جا سکے، زہر کے بدلے تریاق پلایا جا سکے۔ چھٹا جواب ہے کہ پروپیگنڈہ جو بھی ہو مگر آج ہمارے خیبرپختونخوا اور بلوچستان الگ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے، کیا کے پی اس افغانستان کے ساتھ جائے گا جس کی پوری معیشت ہی دہشت گردی، منشیات اور جرائم پر کھڑی ہے۔
ساتواں جواب ہے کہ پی ٹی آئی کی تخریب اور احتجاج کی طاقت وہ نہیں جو عوامی لیگ کے پاس تھی، خاص طور پر چھبیس نومبر کے بعد سانپ کے دانتوں سے زہر نکال لیا گیا ہے۔ آٹھواں جواب ہے کہ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کوئی مرحلہ آیا تو خود اسد قیصر، شاہ محمودقریشی، پرویز الٰہی اور بیرسٹر گوہر تک عمران خان کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے، وہ پاکستان پر اس کو ترجیح نہیں دیں گے۔
نواں جواب پاکستان کی خارجہ محاذ پر کامیابیاں اور بھارت کی ناکامیاں ہیں۔ اب پاکستان وہ نہیں جو عمرا ن خان کے دور میں تھا۔ یہ چین سے امریکہ، سعودی عرب سے ایران، ترکی سے آذر بائیجان تک خاص تعلقات رکھتا ہے اس کی کامیاب ترین خارجہ پالیسی اس کی سالمیت کی گارنٹی بھی ہے۔
دسواں جواب خود بدلتا ہوا بنگلہ دیش ہے جس نے حسینہ واجد کو مشرقی پاکستان سے باہر دھکیل دیا ہے یعنی اندرا گاندھی جو دعویٰ کیا تھا کہ اس نے نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے اسے بتانا ہے کہ وہ نظریہ زندہ بھی ہے اور مضبوط بھی۔ ان دس کی دس وجوہات سے بڑھ کے اللہ رب العزت پر ایمان ہے لاالہ الا اللہ کے نعرے پر بننے والا پاکستان، ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے اوراس میں ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں مگر ان آزمائشوں کے جواب میں اللہ رب العزت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر جیسے مجاہد عطا کر دیتا ہے، ان کی جوڑی شہباز شریف جیسے دیانتدار، محنتی اور محب وطن رہنما کے ساتھ بنا دیتا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ جس نے بھی پاکستان کے ساتھ برا کیا اس کے ساتھ بہت ہی برا ہوا کیونکہ، پاکستان اللہ کا نور ہے، کلمے کے نام پر دنیا کی تاریخ میں مدینة النبی ﷺ کے بعد بننے والی دوسری ریاست ہے۔ پاکستان کا مطلب ہی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ پاکستان کوتوڑنے کی سازش میں جو بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار بنے وہ سب عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے جیسے شیخ مجیب کو خود اس کے اپنے ملک کی فوج نے بیٹوں سمیت گولیاں مار کے بھون دیا اور وہ بھی بنگلہ دیش کے قیام کے تین چار برس کے اندر۔
اندرا گاندھی جو کہ پاکستان توڑنے کے مشن کی فوجی و سیاسی سربراہ تھی وہ اپنے ہی محافظ بھارتی سکھوں کے ہاتھوں گولیوں سے چھلنی کر دی گئی۔ یحییٰ خان کو تاریخ کس طرح یاد رکھتی ہے وہ سب کے سامنے ہے اورذوالفقار علی بھٹو کو درست یا غلط پھانسی کی سزا ہوگئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی جو پاکستان سے دغا کرے گا، اسے نقصان پہنچائے گا وہ بدترین انجام سے دوچار ہوگا۔
میں نہیں جانتا کہ نو مئی برپا کرنے والے، اپنے ہی ملک کو دیوالیہ کرنے کی کال دینے والے، یہاں دہشت گردوں کے فکری اور سیاسی ساتھی بننے والے بانی پی ٹی آئی کا انجام کیا ہوگا مگر میں شدت سے خواہش مند ہوں کہ وہ باز آجائیں، اپنے افکار سے رجوع کرلیں، اعمال بدل لیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو مجھے ان کا انجام صاف نظر آ رہا ہے۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر میں جانتا ہوں کہ فیض حمید کیس کا پارٹ ٹو کیا آنے والا ہے۔ اب کوئی عمران خان کو شیخ مجیب بننے کی اجازت اورموقع نہیں دے گا۔

