Wednesday, 17 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. City Of Democrats Ka Khawab

City Of Democrats Ka Khawab

"سٹی آف ڈیموکریٹس" کا خواب

اپنی مٹی اپنے وسیب اور یہاں کے باسیوں کی ترقی کا خواب دیکھنا دراصل اپنی زمین سے محبت کا تقاضا ہوتا ہے بلکہ فرض ہوتا ہے کیونکہ جو قوم اپنے شہر اور اپنے وسیب کی تعلیمی ترقی و تربیت کا خواب نہیں دیکھتی وہ رفتہ رفتہ دوسروں کے خوابوں میں کردار بن جاتی ہے۔ اپنے شہر کے تعلیمی ادارئے بہتر دیکھنے کا خواب اپنے وسیب کے بچوں کو کتاب کےساتھ باوقار مستقبل کی امید دیتے دیکھنا۔۔ یہ کوئی رومان نہیں بلکہ یہ شعوری ذمہ داری ہے۔ تعلیم وتربیت صرف ڈگری کانام نہیں بلکہ یہ نسلوں کی سمت متعین کرنے کا عمل ہے۔ اگر ہم نے آج اپنے تعلیمی ادارئے مضبوط نہ کئے تو کل اقتدار کے ایوان خالی رہیں گے اور پھر فیصلے بھی ہمارے حق میں نہیں ہوں گے۔

گذشتہ روز احمدپورشرقیہ کے ایک نوجوان حاجی عامر شہزاد سے ملاقات ہوئی جو اپنے شہر کو "سٹی آف ڈیموکریٹس "بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے وسیب کے نوجوانوں اور بچوں کی تعلیمی ترقی کے لیے بڑا عمدہ اور خوبصورت خواب رکھتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ وہ بھول جاتے ہیں کہ ہر یونیورسٹی، ہر اکیڈمی اور ہر باشعور افسر پہلے کسی ایک دل میں اٹھنے والا خواب ہی تھا۔ اگر شہر خواب دیکھنا چھوڑ دئے تو وہ صرف نقشے میں ہی رہ جاتا ہے۔ اس اورسیز پاکستانی کا اپنے شہر کی ترقی کی سوچ رکھنا یقینا" قابل تحسین ہے۔

بےشک اپنے شہر اور وسیب کے لوگوں کی ترقی کا خواب دیکھنا خواہش ہی نہیں بلکہ قومی فرض ہے۔ کیونکہ تعلیم بڑھے گی تو شعور بڑھے گا، شعور بڑھے گا تو اختیار میں شرکت بڑھے گی اور تب ہی ہمارے شہر صرف آباد نہیں بلکہ باوقار ہوں گے۔ وسیب کی تعلیمی ترقی کا خواب دراصل برابری کا خواب ہے۔ یہ ہمارے ہر اس بچے کا خواب ہے جو دور دراز بستی میں پیدا ہوا مگر صلاحیت میں کسی بڑے شہر کے بچے سے کم نہیں۔ یہ خواب اس لیے بھی فرض ہے کہ علم ہی وہ واحد راستہ ہے جو محرومی کو نمائندگی میں بدل سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کچھ خواب فرد نہیں دیکھتا قوم دیکھتی ہے اور کچھ خیالات وقتی نہیں ہوتے وہ مستقبل کا نقشہ بن جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک خواب یہ نوجوان سوچ رہا ہے کہ ایسے ادارئے ہوں جو زندگی کے ہر شعبے کے لیے ایلیٹ افسران کی تعلیم وتربیت ابتدا ہی سے کریں۔ وہ دراصل ایک ایسے تعلیمی نظام کی تلاش میں ہیں جو افراد نہیں کردار پیدا کرئے۔ ان کے خیال میں ہم برسوں سے یہ غلطی دہراتے چلے آرہے ہیں کہ ہم افسر امتحان کے بعد بناتے ہیں۔ اچھا اور قابل انسان بننے کا عمل قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سی ایس ایس، جوڈیشل سروس، پولیس یا دیگر اعلیٰ ریاستی خدمات۔۔ ہمیشہ یہ سوچیں سب سے آخر میں آتی ہیں مگر ان کی بنیاد بہت پہلے پڑتی ہے۔ یہ پہلے سے ہی اسکول کے کمرئے جماعت میں، گھر کے ماحول میں اور سماج کے رویوں میں چھپی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر کے لیے میڈیکل کالج، انجیینئر کے لیے الگ یونیورسٹی اور فوج کے لیے ملٹری اکیڈمی ہو سکتی ہے

تو ریاستی قیادت کے لیے باقاعدہ اخلاقی و فکری تربیت کے لیے کوئی اکیڈمی ابتدا سے کیوں نہیں؟ ایسی اکیڈمی جہاں مقصد محض امتحان پاس کرنا یا کروانا نہیں بلکہ اختیار کے وزن کو سنبھالنے کے قابل انسان پیدا کرنا ہو۔ ایسے اداروں میں انتخاب نمبروں سے نہیں، شعور سے ہونا چاہیے۔ وہ بچے چنے جائیں جن میں سوال کرنے کی جرات ہو، سچ سننے کا حوصلہ ہو اور کمزور کے لیے دل دھڑکتا ہو اور نصاب کے ساتھ کردار بھی شامل ہو یعنی آئین، قانون، تاریخ، فلسفہ، اخلاقیات اور سب سے بڑھ کر عوامی خدمت کا جذبہ اور عملی تجربہ بھی شامل ہو۔ وہ شاید یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ ادارئے بیورو کریسی تک محدود نہ ہوں یہاں جج، منتظم، پولیس افسر، پالیسی ساز اور سماجی رہنما وغیرہ سب کے لیے الگ راستے ہوں

مگر مشترکہ بنیاد انسان دوستی اور جواب دہی ہو۔ ریٹائرڈ مگر دیانت دار افسران استاد ہوں جو کوچ نہیں رہنما ہوں شارٹ کٹ سکھانے والے نہ ہوں۔ ایسے طالب علم کو فائل سے پہلے انسان دکھایا جائے۔ اسے دیہات، تھانوں، کچہریوں اور ہسپتالوں میں لے جایا جائے تاکہ وہ سمجھے کہ ایک دستخط کس کی زندگی بدل دیتا ہے۔ اسے یہ سکھایا جائے کہ اختیار حق نہیں امانت ہے اور مراعات کامیابی نہیں آزمائش ہیں اور سوال کا جواب دینا کمزوری نہیں وقار ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر سوچ کی تبدیلی سب سے اہم ہوتی ہے۔

یہ خواب مہنگا ضرور ہے ناممکن نہیں ہے۔ وہ اپنے شہر کے نوجوانوں کے لیے ایک ایسی ہی تعلیمی اکیڈمی بنانا چاہتے ہیں جو ان کے شہر کو "سٹی آف ڈیموکریٹس " بنادے ٔ۔ شاید وہ یہاں کے نوجوانوں میں ایسا ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابتدا سے ہی ایلیٹ کلاس افسر بننے کا خواب اور خواہش لے کر میدان عمل میں اترئے بلکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر، انجینیر، بینکار، یا فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی خواہش بنیادی طور پر خود بخود پروان چڑھتی ہے۔ اگر ہم اپنے علاقے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آج سے تیس سال قبل تک احمد پور شرقیہ کے بےشمار بیوروکریٹس ملکی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں جسکی وجہ یہاں کے بہترین تعلیمی ادارئے اور قابل اور درد دل رکھنے والے اور رہنمائی کرنے والے استاد تھے

لیکن پھر رفتہ رفتہ بیوروکریسی ہی نہیں ہر شعبہ زندگی میں یہاں کی نمائندگی نسبتا" کم پڑنا شروع ہوئی اور آج یہ بہت کم ہو چکی ہے۔ گذشتہ دنوں احمدپور شرقیہ کے ایک بچے نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی میں مبارکباد دینے گیا اور پوچھا کہ اس مرتبہ آپ کے علاوہ بھی کوئی ہمارے علاقے سے اس امتحان میں پاس ہوا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ پاس ہونا تو دور کی بات ہے ہمارےعلاقے کے نوجوان اس امتحان میں شریک ہی نہیں ہوتے اور بےشمار نوجوانوں کو تو سی ایس ایس کے بارئے میں پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کیسے یہاں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ انہیں ابتدا سے ہی صرف ڈاکٹر یا انجینر بنانے کی تعلیم اور ترغیب دیتے ہیں اور جب وہ یہ نہیں بن سکتے تو دوسرے شعبہ جات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

شہر کے نوجوانوں کی ترقی کا درد رکھنے والے حاجی عامر شہزاد صاحب سے درخواست ہے کہ اپنے پرانے اور نئے اساتذہ اور دانشوران کا ایک "تھینک ٹینک "ضرور بنائیں جو وجوہات تلاش کرکے نشاندہی کر سکے کہ ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں؟ کیوں تونسہ، کوٹ ادو، لیہ، مظفرگڑھ جیسے پسماندہ علاقے کے نوجوان اس میدان میں بہت آگے نکل گئے اور یہ چاروں علاقے بےپناہ ترقی کرکے ضلع کا درجہ بھی حاصل کر چکے ہیں اور آج ہر شعبہ زندگی میں ان علاقوں کی نمائندگی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری سوچ ہی نئی نئی تجاویز سامنے لا سکتی ہے کہ اب کیسے یہاں کے نوجوانوں کی نمائندگی اس شعبہ میں پھر سے مزید بہتر بنائی جاسکتی ہے؟

مجھے یاد ہے کہ ہمارے اباجی مرحوم جو خود ایک آرمی کمیشنڈ آفسر تھے نے بےشمار لوگوں کو رہنمائی فرماکر افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کرنے اور دیگر سول ملازمتوں کے حصول میں مدد کی اور بےشمار لوگوں کو روزگار کے ساتھ ساتھ معاشرے میں باعزت مقام بھی دلایا۔ ہمارے شہر کا ایک نوجوان سعودی عرب یا دوبئی چلا جائے تو رہنمائی کرکے پورے پورے کنبے، خاندان اور دوست وہاں بلا لیتا ہے تو اگر ہمارے علاقے کے بیورکریٹس رہنمائی کریں اور اساتذہ توجہ دیں تو یقینا" یہاں کے باصلاحیت نوجوان آگے آسکتے ہیں۔ ہم نے اپنی اس کمی اور کوتاہی کو تلاش کرکے دور کرنا ہے جو اس شعبہ زندگی میں ہمارے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بےشک احمدپورشرقیہ باصلاحیت افراد سے بھرپور علاقہ ہے۔ یہاں کے ٹیلنٹ کی پذئرائی کے لیے اللہ تعالیٰ حاجی عامر شہزاد اور اسکے ساتھیوں کی اس مثبت سوچ اور کوشش کو کامیاب فرماےامین!

Check Also

Qaum e Loot Ki Tabahi Ki Scienci Gawahi

By Saleem Zaman