Wednesday, 17 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Puttar Sachiyan Nu Mirchan

Puttar Sachiyan Nu Mirchan

پتر سچیاں نوں مرچیاں

شہداء! ہم شرمندہ ہیں اس لیے نہیں کہ ہم نے پھول نہیں چڑھائے بلکہ اس لیے کہ ہم نے سچ کو بارہا دفنایا ہم نے وہ بیج خود بوئے جن کی جڑیں آج ہمارے گھروں کی بنیادوں میں اتر چکی ہیں اور پھر حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ آگ کہاں سے لگی؟

یہ آج کا کھیل نہیں یہ برسوں کی مشق ہے برسوں کی سرپرستی ہے برسوں کی خاموشی ہے دشمن کے بچوں کو پہلے سبق پڑھایا گیا پھر انہیں سرحد پار بھیجا گیا پھر وہاں اقتدار کے زینے تھمائے گئے اور آج وہی ہاتھ ہماری فوج پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ سہولت کار کراچی سے گلگت تک دندناتے پھرتے ہیں، شناختیں بدلتے ہیں، نام بدلتے ہیں مگر کام ایک ہی رہتا ہے۔ خون کی سیاست اور المیہ یہ نہیں کہ دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ ان کے ہمدرد ہمیں مسلط کر دیے گئے۔

وہی چہرے جو کل اشاروں پر ناچے، آج منبر مائیک اور مینڈیٹ پر قابض ہیں پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے سچ یہ ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا جب کرنا تھا یہ معلوم سے نامعلوم کی کہانی نہیں رہی سب کچھ واضح ہے نقشہ کردار مکالمہ سب سامنے ہے مگر جو آئینہ دکھائے اسے غدار کہا جاتا ہے جو سچ بولے اس کے لہجے پر اعتراض نیت پر حملہ اور زبان پر تالے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آئینہ مت توڑو چہرہ بدلو اپنے مکروہ چہرے کو نیک عملوں سے دھوؤ اللہ سے معافی مانگو اور اس قوم سے بھی جسے تم نے خوف فریب اور فتوؤں کے حصار میں رکھا وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا وقت اپنی ہیئت بدلتا ہے۔ آج جو بیانیہ طاقت ہے کل بوجھ بن جاتا ہے سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ناگوار لگتا ہے مگر اس کے بغیر شفا ممکن نہیں پنجابی کی ضرب المثل یوں ہی نہیں بنی "پتر، سچیاں نوں مرچیاں"۔

سچ جب زبان پر آئے تو جلتا ہے آنکھوں میں چبھتا ہے مگر اسی جلن میں علاج پوشیدہ ہے شہداء کے نام پر تقریریں بہت ہوئیں خوب منجھن بیچا گیا مگر شہداء کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ خوابوں کی حفاظت کم ہوئی یہ وقت ہے کہ ہم جذباتی نعروں سے آگے بڑھیں ریاستی غلطیوں کا اعتراف کریں پراکسیوں کی سیاست دفن کریں اور قانون کو بلاامتیاز حرکت میں لائیں ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور شہداء کی خاموش نگاہیں ہمارے ہر عذر کو جھوٹ ثابت کرتی رہیں گی۔ سچ کہنے کی قیمت ہوتی ہے مگر خاموشی کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔

شہداء! ہم شرمندہ ہیں اور اس بار شرمندگی کی وجہ صرف ہماری کمزوری نہیں ہماری بھول بھی ہے۔ ہم نے اصل سوال ہی بھلا دیا وہ سوال جو ہر ماں کی چیخ میں آج بھی زندہ ہے ہر بچے کے بستے میں آج بھی لرزتا ہے ہر سپاہی کے ضمیر پر آج بھی دستک دیتا ہے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قاتل آخر اب تک کیوں نہیں پکڑے گئے؟ یہ سوال معمولی نہیں یہ ریاست کے ضمیر پر ثبت سوال ہے دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گلگت میں حال ہی میں قاضی نثار کے آٹھ مجرم دنوں میں پکڑے جاتے ہیں اور یہاں اے پی ایس کے معصوم بچوں کے قاتل برسوں بعد بھی قانون کی دسترس سے باہر نہ ہوتے انصاف اگر چاہے تو رفتار پا لیتا ہے اگر نہ چاہے تو فائلوں میں دفن ہو جاتا ہے۔

یہ معلوم سے نامعلوم کی کہانی نہیں رہی سب کچھ واضح ہے مگر جو آئینہ دکھائے اسے غدار ٹھہرا دیا جاتا ہے جو پوچھے کہ اے پی ایس کے قاتل کہاں ہیں اس کی نیت پر شک ڈال دیا جاتا ہے آئینہ مت توڑو چہرہ بدلو۔ اپنے مکروہ چہرے کو نیک عملوں سے دھوؤ، اللہ سے معافی مانگو اور اس قوم سے بھی جس کے بچوں کا خون تمہارے وعدوں پر سوال بن کر جما ہوا ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے جلتا ہے آنکھوں میں مرچیں ڈال دیتا ہے اسی لیے ناگوار ہے جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ دہشت گردی صرف بندوق سے نہیں سرپرستی خاموشی اور دوغلے بیانیے سے بھی پنپتی ہے تب تک اے پی ایس جیسے سانحات کے سائے ہمارے تعلیمی اداروں پر منڈلاتے رہیں گے۔

شہداء ہم شرمندہ ہیں اس لیے کہ ہم نے سوال پوچھنے میں تاخیر کی مگر اب بھی وقت ہے اگر مرچیں لگ رہی ہیں تو سمجھ لو سچ زندہ ہے اور زندہ سچ ہی قوموں کو زندہ رکھتا ہے موجودہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قتیل شفائی کا یہ شعر

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا

قتیلِ شفائی کا یہ مصرعہ ہمارے عہد کی سب سے بڑی گواہی بن چکا ہے ظلم سہنے کا ہنر ہم نے کمال تک سیکھ لیا ہے مگر بغاوت سچ کی سوال کی، انصاف کی وہ کہیں کھو گئی ہے۔ چاروں طرف قتل و غارت ہے لوٹ مار ہے، لاشیں ہیں مائیں ہیں سسکیاں ہیں مگر حکمرانوں کی خاموشی ایسی جیسے یہ سب کسی اور دنیا میں ہو رہا ہو۔ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کا ذکر آتا ہے تو ہر سال شمعیں جلتی ہیں تقاریر کی آگ بھڑکتی ہے آنسوؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔ وعدوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں مگر یہ سب رسومات ہیں انصاف نہیں یہ یادگاریں ہیں جواب نہیں اصل سوال آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں برسوں پہلے کھڑا تھا قاتل کہاں ہیں؟

جن بچوں کے بستے خون میں ڈوبے جن کی ہنسی گولیوں میں دب گئی ان کے قاتلوں کا سراغ آج تک نہ ملنا صرف ناکامی نہیں ایک اجتماعی جرم ہے اگر قاتل نہیں ملتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ڈھونڈنا چھوڑ دیا ہے ہم نے سچ کے دروازے پر دستک دینا چھوڑ دی ہے قومیں تقریروں سے نہیں۔ انصاف سے زندہ رہتی ہیں چراغ تب معنی رکھتے ہیں جب اندھیرے کو چیرنے کی نیت ہو۔ ورنہ یہ روشنی نہیں صرف ضمیر کو بہلانے کا ایک انتظام ہے اور شاید یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔

Check Also

Javed Chaudhry Baad Az Retirement

By Najeeb ur Rehman