Wo Jo Bechte Thay Dawa e Dil
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

آج شام سیر کو نکلے تو بڑی سڑکوں سے الگ تنگ گلیوں کا انتخاب کیا۔ سڑکوں پر گاڑیاں ہوتی ہیں لیکن زندگی کے امکانات کوچہ و بازار میں زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی خیال میں بے مقصد آوارہ گردی کرتے جو ایک چوراہے پر پہنچے تو وہاں بیٹھی درمیانی عمر کی ایک دیہاتی حلیے والی خاتون نے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ پاس گئے تو بولیں اندر آ جاؤ۔ یہ بھی اچھا ہے، چینی لوگ دوستانہ مزاج رکھتے ہیں۔ مرد حضرات سلام کے ساتھ سگریٹ پیش کرتے ہیں۔ خاتون شاید ہمیں چائے پلانا چاہتی تھیں۔ جیسا کہ ہمارا رواج ہے، معذرت کی کہ بس ابھی چائے پی کر نکلے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
دو قدم گئے ہوں گے کہ ایک اور خاتون ملیں، انہوں نے بھی وہی دعوت دی۔ اہل کوچہ کی مہمان نوازی پر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔ دل میں سوچا کہ اُدھر پاکستان میں پشتون بے وجہ مشہور ہیں۔ اصل مہمان نوازی سیکھنی ہو تو چین آئیے۔ خیر یہ خاتون ذرا جوان تھیں، لباس کی تراش خراش درست، سنگھار اچھا، پڑھی لکھی معلوم ہوتی تھیں۔ سوچا انہی سے پوچھا جائے کہ آج ہماری آمد پر اتنی خوشی کیوں؟ پہلے بھی ہم ادھر اُدھر بھٹکتے رہے ہیں لیکن کسی نے یوں گھر میں دعوت نہیں دی۔
پہلے وہی "نی۔ ہاؤ" وغیرہ ہوا۔ جب ہمارا چینی ذخیرہ الفاظ ختم ہوگیا تو اصل مدعا دریافت کرنے کیلئے فون نکالا۔ وہ سامنے کیا تو ایک دم انہیں چُپ لگ گئی۔ پھر چینی میں بولیں، " طالب علم؟"
یہ لفظ چونکہ ہمیں آتا ہے، اس لیے ہم نے فوراً ہاں ہاں میں جواب دیا اور دل میں خود کو سراہا۔ ایسے ہی لوگ کہتے ہیں کہ چینی زبان مشکل ہے۔
خیر اب انہوں نے اپنی طرف اشارہ کیا اور بولیں "استاد۔ استاد"
یہ جملہ بھی ہم نے پکڑ لیا کہ ہم ایک استاد سے ہم کلام ہیں۔ روایتی چینی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ہم اساتذہ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ معلمین کو لے کر چینی پکے مشرقی واقع ہوئے ہیں اور یہ پیشہ یہاں معزز ترین پیشوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ ہم نے بھی بچپن میں استاد کی عظمت پر مضمون یاد کر رکھا ہے اور یہاں کئی اساتذہ کو سنا بھی چکے ہیں اس لیے وہی ان کے سامنے پیش کرنے لگے لیکن وہ فوراً ہی ہمیں ٹوکتے ہوئے اندر کھینچنے لگیں کہ کمرہ جماعت میں چلو۔
یہ بات عجیب تھی۔ عرض کیا کہ ابھی گھنٹہ بھر پہلے کلاس سے ہی آ رہے ہیں۔ پھر یہ کہ آپ ناجانے کیا پڑھاتی ہیں اور ہمیں سمجھ بھی کیونکر آئے گا، آپ کی زبان میں ہم گونگے ہیں۔ آخری بات یہ کہ جہاں آپ ہمیں کھینچ رہی ہیں وہ جگہ کمرہ جماعت تو کسی طرح بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں پلنگ کا بھلا کیا کام؟
ہماری یہ باتیں سن کر ان کے چہرے پر مایوسی کے آثار چھانے لگے۔ لیکن ہمت نہ ہارتے ہوئے انگریزی میں بولیں، "پارٹی؟"
اس لفظ نے دل کے داغ چھیڑ دیے۔ نمناک لہجے میں عرض کیا کہ پارٹی تو ایک ہی تھی جس سے ہمیں لگاؤ تھا، وہ آج کل زیرِ عتاب ہے۔ آپ ہمارے زخموں پر نمک مت چھڑکیے اور ہمیں جانے دیجئے۔ ہمیں آپ کی بات سمجھ نہیں آتی۔ چلنے لگے تو انہوں نے پھر دامن کھینچا اور فون پر ایک انتہائی اخلاق باختہ قسم کی فلم چلا کر سامنے کر دی، ساتھ کہنے لگیں سو یوان، سو یوان۔ اب معاملے کی نزاکت ہم پر کھُلی تو لاحول ولاقوۃ پڑھتے ہوئے وہاں سے بھاگے۔ آگے پھر جن اساتذہ نے ہمیں اپنے کلاس روم میں دعوت دی انہیں دور سے ہی سلام کرتے ہوئے اس محلے سے نکل آئے۔
لی شوئے لونگ ہمارا چینی دوست ہے۔ واپس آ کر یہ قصہ بیان کیا تو بہت ہنسا۔ اس نے بتایا کہ یہاں فاحشگی اگرچہ قانوناً جرم ہے لیکن کچھ لوگ ابھی بھی اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کے ہاں استاد، شاگرد اور کلاس روم کی اصطلاحیں اور ہی معنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے بقول چونکہ اس دھندے کی جڑیں قدیم ثقافت تک میں پیوست ہیں اس لیے اس کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں بلکہ حالیہ برسوں میں مزید بڑھوتری دیکھی جا رہی ہیں کیونکہ دولت کی ریل پیل کے ساتھ ایک تو گاہکوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، دوسرا خواتین بھی بہتر اشیاء اور بہتر طرزِ زندگی کے لالچ میں اس طرف راغب ہو رہی ہیں۔ یہ ساری باتیں ہماری سمجھ میں نہ آئیں۔ ایک تو چینی خصوصاً نوجوان انتہائی شرمیلے سے ہوتے ہیں، دوسرا انشاء جی نے اپنی کتاب میں بھی کچھ اور ہی قصہ سنایا تھا۔ یہ بات کملیش کو بتائی تو اس نے ایک ہی جملے میں بات سمیٹ دی۔ کہنے لگا، ذرا سوچو کہ یہ چینی اگر اتنے ہی شرمیلے ہیں تو ملک کی آبادی ڈیڑھ ارب کیسے ہوگئی؟
کچھ دن قبل ایک دوست کے ساتھ چین میں شادی خانہ آبادی کے موضوع پر بات ہوئی تو اس نےبھی کہا تھا کہ یہاں اب شادیوں کی شرح بہت کم ہو چکی ہے۔ نوجوان ہلکے پھلکے طریقے سے ہی معاملات چلانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اکیلے رہ کر خوش ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں جب انشاء جی چین آئے تو نئے نئے انقلاب کے دن تھے۔ اصلاحات کا زور تھا، نئے جوش نئے ولولے تھے، اسی زور و شور میں تمام حسن فروشوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں یا اصلاحی مراکز میں بھیج دیا گیا۔ جو اسی کام پر مُصر تھے وہ بھاگ کر ہانگ کانگ چلے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس معاملے میں ہانگ کانگ خلیج پر واقع برادر اسلامی ملک کو ٹکر دیتا ہے۔ لیکن جو فری مارکیٹ نظام ہانگ کانگ میں تب موجود تھا، وہ آہستہ آہستہ چین میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آزاد منڈی ہو لیکن منڈی میں بکنے والی قدیم ترین جنس دستیاب نہ ہو؟ ہائے ہمارے انشاء جی، اُنہی نے لکھا تھا کہ "وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ " آج ہوتے تو ان دکانوں کو دوبارہ آباد ہوتا دیکھ کر جانے کیا کہتے۔

