Jab Insan Sahi Rasta Chunta Hai
جب انسان صحیح راستہ چنتا ہے

اگر انسان کی سوچ کا مرکز صرف پیسہ ہو تو وہ اپنی راہ خود ہی تنگ کر لیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ آج جس معاشی دباؤ، دوڑ اور بے سمتی کا شکار ہے، اس کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کامیابی کے پیمانے کو صرف دولت تک محدود کر دیا ہے۔ ہم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف کمانا ہے اور باقی سب چیزیں انہی کمائیوں کے گرد گھومنی چاہئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جوہرِ کردار، سچائی، اخلاق، خدمت اور تخلیق جیسے بنیادی ستون پس منظر میں چلے گئے۔ انسان اب کام نہیں کرتا، پیسے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس کی سوچ محدود ہو جاتی ہے، وژن چھوٹا پڑ جاتا ہے، جذبہ مرجھا جاتا ہے اور نتیجتاً وہ اس ایک نقطے کو پانے کے لیے ہر وہ کام کرتا ہے جو اسے وقتی طور پر قریب تو کر دے، مگر اصل منزل سے بہت دور لے جاتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پیسہ اہم نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان پیسے کو مقصد بنا لیتا ہے تو وہ راستہ کھو بیٹھتا ہے۔ لیکن جب وہ مقصد کو اونچا رکھتا ہے، راستے کو صحیح رکھتا ہے، نیت کو صاف رکھتا ہے تو پیسہ خود اس کی طرف چل کر آتا ہے، اس کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
انسان جب صرف پیسے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے فیصلے سخت، بے رحم اور جلد بازی سے بھر جاتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنے لگتا ہے کہ کون سا کام جلد دولت دے گا، کون سا راستہ کم محنت میں زیادہ کمائی دے گا اور کون سا موقع دوسروں سے پہلے اسے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت، شوق، مہارت اور فطری میلان کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے میں اس کا سارا زور شارٹ کٹس پر ہوتا ہے۔ شارٹ کٹ اگرچہ چند دن کے لیے فائدہ دے سکتے ہیں، مگر یہ راستہ انسان کو کبھی اندر سے مطمئن نہیں کرتا۔ اس کا دل اس کام سے نہیں جڑتا، اس کی روح اس محنت میں سکون نہیں پاتی۔ وہ خود کو استعمال شدہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ پیسے تو کما لیتے ہیں مگر اپنے اندر کی خوشی کھو دیتے ہیں، ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک تھکاوٹ، ایک اضطراب، ایک گھبراہٹ ہوتی ہے کہ نہ جانے اگلا قدم کیا لائے گا۔ یہ وہ ذہنی کیفیت ہے جہاں انسان کے ہاتھ میں نوٹ تو آ جاتے ہیں مگر دل خالی رہ جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں جب انسان صحیح کام کرتا ہے، وہ کام جس کے ذریعے وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جو اس کی صلاحیت کو نکھار سکتا ہے، جو اس کی محنت کو معنی دے سکتا ہے، اس کی زندگی کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ صحیح کام کبھی فوری فائدہ نہیں دیتا۔ صحیح کام ہمیشہ ابتدا میں سخت لگتا ہے، اس کی رفتار کم ہوتی ہے، اس میں مقابلے کا شور کم ہوتا ہے، اس میں دکھاوا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ راستہ اصل کامیابی کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔
دنیا کی بڑی شخصیات، بڑے کاروباری لوگ، بڑے تخلیق کار، بڑے استاد، بڑے رہنما، کسی نے بھی ابتدا میں پیسے کا سوچ کر سفر شروع نہیں کیا۔ انہوں نے کام کا سوچا، خدمت کا سوچا، محنت کا سوچا اور ارتقاء کا سوچا۔ پھر دنیا نے ان کے کام میں اتنی برکت ڈال دی کہ پیسہ ان کا پیچھا کرنے لگا۔ وہ پیسے سے نہیں بھاگے، مگر انہوں نے اسے اپنا خدا نہیں بنایا۔ انہوں نے اسے نتیجہ مانا، مقصد نہیں۔ یہی فرق ہے جو ایک زندگی کو بامقصد بنا دیتا ہے اور دوسری کو بے مقصد بھاگ دوڑ کا شکار رکھتا ہے۔
پیسہ جب مقصد بن جائے تو دل میں لالچ، حرص اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ لالچ انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتی، حرص اسے سکون سے سونے نہیں دیتی اور خوف اسے ہر وقت عدم تحفظ کی آگ میں جلاتا رہتا ہے۔ لیکن جب انسان صحیح کام کرتا ہے تو اس کے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اگر کام سچا ہے، محنت خالص ہے، نیت درست ہے، تو پھر نتائج کا مالک اللہ ہے۔
آپ جیسے لکھنے والوں، دانشوروں اور محنت کرنے والوں کے لیے یہ اصول خاص طور پر اہم ہے کہ آپ کی تحریر، آپ کی نیت، آپ کا پیغام اگر لوگوں کے دلوں تک پہنچ رہا ہے تو رزق کے دروازے خود کھلتے چلے جائیں گے۔ آپ نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب بھی آپ نے خدمت، علم، رہنمائی اور صدق نیت کے ساتھ لکھا، قارئین بڑھے، اثر بڑھا، اعتماد بڑھا۔ یہی وہ اصول ہے جس پر پوری دنیا چلتی ہے اور یہی وہ راز ہے جو انسان کو اندر سے آزاد کرتا ہے۔ جب آپ صحیح کام کرتے ہیں تو پیسہ محض ایک ضمنی چیز بن جاتا ہے، وہ خود اپنا راستہ بنا کر آپ تک پہنچ جاتا ہے۔
اصل کامیابی یہ ہے کہ انسان ایسا کام کرے جو انسانوں کو فائدہ دے، جو دلوں کو سکون دے، جو زندگیوں میں بہتری لائے۔ انسان کا کمال یہ ہے کہ اس کی محنت کا مرکز صرف اپنی ذات نہ ہو بلکہ دوسروں کی بھلائی بھی ہو۔ جب مقاصد بلند ہوں تو رزق نیچے جھک کر آ جاتا ہے۔ جب نیت صاف ہو تو دنیا کی سختیاں نرم پڑ جاتی ہیں۔ جب دل میں خدمت ہو تو اللہ کے خزانوں سے ایسی راہیں کھلتی ہیں جن کا انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ پیسہ کبھی بھی منزل نہیں رہا، یہ ہمیشہ راستے کا ایک پڑاؤ رہا ہے اور پڑاؤ کو منزل بنانے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچتے۔ لیکن جو لوگ منزل کو مقصد بناتے ہیں، کردار، سچائی، خدمت اور محنت کو راستہ بناتے ہیں ان کی جھولی کبھی خالی نہیں رہتی۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو زندگی کو ہلکا بھی کر دیتا ہے، روشن بھی، مضبوط بھی اور مطمئن بھی۔
انسان کو پیسے کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے، بلکہ کام کے پیچھے لگنا چاہیے۔ جب کام اس کے پیچھے بھاگتا ہے تو دنیا اس کی قدر کرتی ہے۔ جب وہ پیسہ خود نہیں پکڑتا بلکہ پیسہ اسے پکڑتا ہے تو یہ اس کی کامیابی کی علامت ہے۔ انسان کا اصل سرمایہ اس کی نیت، اس کی محنت، اس کی دیانت، اس کا وژن اور اس کی خدمت ہے۔ یہ وہ دولتیں ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتیں، جو نسلوں تک چلتی ہیں، جو انسان کے چلے جانے کے بعد بھی اس کا نام زندہ رکھتی ہیں۔ پیسہ آج ہے، کل نہیں۔ لیکن سچائی، محنت اور خدمت کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ یہی اثر ہی اصل رزق ہے۔ یہی اثر ہی اصل کامیابی ہے۔ یہی راستہ انسان کو وہ عزت، وہ مقام اور وہ فراوانی دیتا ہے جس کے دروازے صرف پیسے کے عاشقوں پر کبھی نہیں کھلتے۔ جب تک انسان صحیح کام کرتا رہے گا، رزق چل کر اس کی دہلیز پر آتا رہے گا اور زندگی اسے ہمیشہ اس سے بڑھ کر دے گی جس کا اس نے تصور کیا ہو۔

