Qaum e Loot Ki Tabahi Ki Scienci Gawahi
قوم لوط کی تباہی کی سائنسی گواہی

شہر ٹال الحمام، جسے بائبل اور اسلامی روایات میں سدوم سے منسوب کیا جاتا ہے، اردن کی زرخیز وادی میں ایک شاندار مقام پر واقع تھا۔ یہ خوبصورت زمین اپنی مادی آسودگی کے عروج پر تھی، لیکن اس کی خوشحالی کے پیچھے ایک خوفناک اخلاقی گراوٹ پل رہی تھی۔ اس شہر کے لوگوں نے ایسا برا عمل شروع کر دیا تھا جو دنیا میں ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا اور اس سے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید آگے بڑھتے جا رہے تھے (سورۃ الأعراف 7: 80)۔
وہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرتے تھے، یہ ایک حد سے تجاوز کرنے والا عمل تھا (سورۃ الأعراف 7: 81)۔ اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت لوطؑ کو بھیجا، مگر قوم کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی اور جب لوطؑ نے انہیں بے حیائی سے باز رہنے کو کہا، تو ان کا متکبرانہ جواب یہ تھا: "لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ تو بڑے پاکباز بنتے ہیں!" (سورۃ النمل 27: 56)۔ جب نافرمانی اپنی انتہا کو پہنچی، تو لوطؑ نے اپنے رب سے مدد مانگی اور کہا: "اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما" (سورۃ العنکبوت 29: 30)۔
اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور رات کے وقت چند فرشتوں نے لوطؑ کو حکم دیا: "ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا صبح قریب نہیں ہے؟" (سورۃ ہود 11: 81)۔
چنانچہ، حضرت لوطؑ اپنے خاندان کو لے کر اندھیری رات کے آخری حصے میں شہر سے نکل گئے اور وعدے کے مطابق، عذاب کا وقت صبحِ صادق کے ساتھ ہی آ گیا۔ میں، اس سب کا ایک عینی شاہد، ایک بلند چوٹی پر کھڑا تھا اور میری نگاہیں نیچے وادی میں آباد شہر ٹال الحمام پر جمی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ صرف ایک گھر کے چراغ تمتما رہے تھے، شاید اسی گھر کے لوگ جاگ رہے تھے، باقی پوری بستی ایک پر شباب رات گزار کر میٹھی نیند سو رہی تھی۔
میں نے دیکھا کہ اچانک، مشرقی افق پر، جہاں سے ابھی سورج نے طلوع ہونا تھا، ایک چمک ابھری۔ یہ ایک عام چمک نہیں تھی، یہ ایک خوفناک خلائی پتھر تھا جو بے پناہ رفتار سے فضا میں داخل ہو چکا تھا اور پھر، آسمان میں، میرے سر سے بہت اونچا، ایک ایسا دھماکہ ہوا جس کی شدت کا میں آج بھی تصور نہیں کر سکتا۔ یہ کاسمک ایئر برسٹ، یعنی خلائی فضا میں دھماکہ، تھا، جس کی طاقت ہزاروں ایٹم بموں کے برابر تھی۔
سب سے پہلے جو چیز زمین تک پہنچی، وہ تھرمک ریڈی ایشن، شدید حرارتی شعاعیں تھیں۔ یہ ایک سفید آگ تھی جو روشنی سے بھی زیادہ تیزی سے سفر کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ شہر کی لکڑی، کپڑے اور یہاں تک کہ مٹی کے برتنوں کی اوپری سطحیں پلک جھپکتے ہی پگھل کر شیشے کی طرح چمک اٹھیں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت درجہ حرارت 2000 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو چکا تھا۔ شہر کا ہر نامیاتی مادہ بھاپ بن چکا تھا۔
اس حرارتی جھٹکے کے چند ہی لمحوں بعد، ایک خوفناک، غیر مرئی دیوار نمودار ہوئی۔ یہ Shockwave، یعنی دباؤ کی لہر، تھی، جو ہوا کے بجائے ایک ٹھوس مکے کی طرح تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس دباؤ نے شہر کی عمارتوں کو ایسے کاٹ کر رکھ دیا، جیسے کسی نے تیز دھار آری سے ان کے درمیان سے کئی منزلوں کو کاٹ دیا ہو۔ یہ ایک Shearing Effect تھا، یعنی کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ عمارتوں کا ملبہ نیچے نہیں گرا، بلکہ وہ زبردستی گھسیٹ کر ہوا میں اڑایا گیا اور پھر دور شمال مشرقی سمت میں بکھیر دیا گیا۔ اس لہر نے صرف عمارتوں کو ہی نہیں توڑا، اس نے زمین کو بھی اکھاڑ دیا اور شہر کی زرخیز مٹی کی اوپری سطح ہوا میں اڑ گئی۔ آج کے ماہرین اس زمین میں Shocked Quartz، دباؤ زدہ پتھر کے ذرات، تلاش کرتے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ زمین نے ایسا غیر معمولی دباؤ جھیلا تھا۔
اس سائنسی عمل کی توجیہ کرتے ہوئے، اس کے متوازی اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان یاد آتا ہے: "بے شک اللہ کے فرشتے جبرائیلؑ نے قوم لوط کی بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھایا، یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچ گئے اور پھر اسے الٹا کر زمین پر پٹخ دیا یہاں تک کہ اس کے گرنے کی آواز آسمان کے باسیوں نے بھی سنی"۔ (صحیح ترمذی 3175، صحیح ابن ماجہ 4048)۔
جب ہمارا حکم آ گیا، تو ہم نے اس شہر کے اوپر کے حصے کو نیچے کا حصہ بنا دیا (سورۃ ہود 11: 82)۔ صبح ہوتے ہی ان ظالموں کو ایک چیخ نے آ لیا (سورۃ ہود 11: 83) اور ہم نے ان بستیوں کو ایسا بنایا کہ آنے والی نسلوں کے لیے انہیں ایک کھلی نشانی بنا دیا (سورۃ العنکبوت 29: 35)۔
اور جب سب کچھ تھم گیا، تو ایک آخری سانحہ ہوا۔ دھماکے کی شدت نے قریب ہی بحیرہ مردار کا کھارا پانی بخارات بنا کر فضا میں بلند کر دیا تھا۔ اب یہ بخارات بادل بن کر شہر پر واپس برسے۔ یہ کوئی بارش نہیں تھی، یہ نمک اور کیمیائی مادوں کا محلول تھا۔ یہ زہریلا پانی شہر کی باقی ماندہ زمین پر جم گیا۔ وہ علاقے ویران ہو گئے، جہاں نمک اور راکھ کی ایسی تہیں جم گئیں کہ زمین صدیوں تک بنجر رہی۔
حوالہ جات (References)
الف۔ مذہبی اور تاریخی ماخذات (Religious and Historical Sources)
قرآن کریم (تراجم): سورۃ الأعراف (7: 80,7: 81)، سورۃ النمل (27: 56)، سورۃ الشعراء (26: 167)، سورۃ العنکبوت (29: 28,29: 30,29: 35)، سورۃ ہود (11: 81,11: 82,11: 83)۔
احادیثِ مبارکہ: صحیح ترمذی 3175 اور صحیح ابن ماجہ 4048
ب۔ سائنسی اور آثار قدیمہ کے مستند حوالہ جات (Scientific and Archaeological Sources)
Boslough, K. P. et al. (2021). A Tunguska-scale airburst destroyed Tall el-Hammam 3,600 years ago. Scientific Reports (Nature Portfolio).
* Collins, S. , & Al-Bataineh، H. (2018). The Tall el-Hammam Excavations.
* Tunguska Impact Study Group. (1908 Event Analysis).

