لاء آف اٹریکشن

کچھ دن پہلے مجھے کسی اچھے بندے سے ایک کام تھا۔ اکثر لوگ کسی کو اپنا کام بتاتے ہوئے زرا جھجک جاتے ہیں۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں کہ کسی سے کسی کام کی ریکوسٹ کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔
ہاں کسی دوسرے بندے کا مسئلہ ہو یا کام ہو تو میں ضرور آگے ریکوسٹ کر دوں گا۔ لیکن پھر ایک اور مسئلہ درپیش ہے کہ میں آگے بھی اس بندے کو ریکوسٹ کرسکتا ہوں جسے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں یا مجھے علم ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔ ورنہ انجان کو کبھی نہیں کہتا کہ اگلا انکار کر دے تو کچھ دن مجھے خود سے شرمندگی سے رہتی ہے۔
ویسے تسلی رکھیں کسی کے غلط کاموں کے بارے کسی کو نہیں کہتا۔ اس لیے شاید کسی کو کسی مصیبت میں پھنسے بندے کی درخواست کر دوں تو اگلے بھی مہربانی کرتے ہیں۔ میرے بھائی طارق قریشی صاحب بھی ان مہربانوں میں سے ہیں اور مجھ ان کی کمزوری کا علم ہے کہ وہ Cancer star ہیں لہذا ایسے دوست انکار مشکل سے کر پاتے ہیں۔
خیر ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ میں ایک دفعہ ہی ریکوسٹ کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ اگر کرنا ہے تو کر دیں گے۔ میں سرائیکی محاورے کی طرح آٹا باندھ کر بندے کے پیچھے نہیں پڑ جاتا کہ روز میسج کروں۔ حالانکہ میرا خیال ہے فالو آپ ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگلے بندے کو بھی لاکھ بکھیڑے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ذہن سے اتر جاتا ہے۔
خیر میرے چھوٹے بھائی زاہد گشکوری سے اس بندے کا ذکر ہوا تو اتفاقاََ ان کے پاس اس بندے کا نمبر تھا اور زاہد نے اس کی تعریفیں بھی بہت کیں۔ مجھے کہا آپ انہیں میسج کردیں وہ کام کر دیں گے۔
زاہد نے مجھے ان کا فون نمبر واٹس ایپ بھیج دیا۔
اب میں میں تین چار دن سوچتا رہا کہ یار وہ بندہ میرا واقف نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ جواب ہی نہ دے یا جو کام ہے وہ نہ کرے تو سبکی ہوگی۔ میں نے یہ سب سوچ کر انہیں میسج نہ کیا اور سوچا جانے دیں۔
اگلے دن میں نیب کی کرپشن کے خلاف واک میں گیا تو پروگرام کے اختتام پر میں کراوڈ سے ہٹ کر قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھے ہوئے چند منٹس ہوئے تھے کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ اچھی شخصیت کا ایک بندہ چلتا ہوا میری طرف آیا۔ میں نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا۔
انہوں نے کہنا شروع کیا رئوف صاحب میں تو آپ کا فین ہوں، آپ کے کالم، ٹی وی شوز، وی لاگ سب دیکھتا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہورہی ہے آپ سے مل کر۔
انہوں نے جیب سے وزٹینگ کارڈ نکالا اور جاتے ہوئے میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کسی وقت نکالیں، ملاقات ہونی چاہیے۔
ہم دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ ان کے جانے کے بعد میں نے کارڈ پر نام پڑھا تو وہی صاحب تھے جن کا نمبر مجھے زاہد گشکوری نے دیا تھا اور جنہیں میں نے ایک ہفتہ سوچنے کے بعد میسج نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

