Pepsi Phobia
پیپسی فوبیا
یہ قصہ شروع ہوتا ہے 1903 سے۔ روس میں ایک کتابچہ چھپتا ہے۔ کتابچے میں درج تھا کہ یہودی دنیا پر اپنا ورلڈ آرڈر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں 1860 میں پیرس اور لندن میں منعقد ہونے والی مبینہ عالمی صہیونی کانفرنسوں کا احوال بھی لکھا گیا تھا جن کا مقصد دنیا پر یہودیت کا تسلط قائم کرنا تھا۔ اس کتابچے کا نام تھا The protocol's of elder of zion۔ یہی وہ دستاویز تھی جو دنیا میں یہودی سازش والے نظرئیے کی بنیاد بنی۔
دستاویز میں خاصے دلچسپ انکشافات کیئے گے تھے۔ مگر اس سے پہلے اس کتابچے کے تاریخی پس منظر میں جاتے ہیں۔ روس کے پولینڈ والے مغربی حصے میں اس وقت پولش یہودی خاصی کثیر تعداد میں رہتے تھے۔ زار روس کی حکومت نے ان پر کافی پابندیاں لگائی تھیں۔ جیسے کوئی یہودی روس کے مشرقی حصے میں سفر نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس ڈپلومہ یا کامرس لائنسنس نہ ہو۔ یہود کی آبادیوں کو زار روس کی سرکار "قہال" کے ادارے سے چلاتی تھی یہ ایک طرز کا پنچایت یا جرگے کی طرز کا اداراہ ہوتا۔ بنی اسرائیل میں قہال کا نظام صدیوں پرانا تھا۔ ایک یہودی ربی Jacob brafman قہال کے ادارے کے خلاف تھا۔ اس نے بعدازاں اس کے خلاف دو کتابیں لکھیں۔ The universal Jewish brotherhood اورThe book of qahal.
اس میں اس نے یہودیوں کے ادارے قہال کو ایک پراسرار سازشی نظام قرار دیا جس کا مقصد دنیا پر یہودی ورلڈ آرڈر قائم کرنا تھا۔ مذکورہ کتابچہ بنیادی طور پر ان دو کتابوں سے متاثر تھا۔ کتاں چے میں دعویٰ کیا گیا تھا۔
سوشلزم اور انقلاب فرانس کے پیچھے یہودی سازش تھی اور اس کی مدد سے وہ دنیا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ یہودی دنیا کے معاشی نظام پر قبضہ کرنا چاہتے پیں۔ دنیا کے بڑے واقعات یہودی سازش کا نتیجہ ہوتے ہیں وغیرہ۔ روس کے بادشاہ الیگزینڈر سوئم کو مروانے بھی انہی یہودیوں کا کردار تھا۔
اس طرح کے بےشمار دعوے کیئے گے۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی اس کے مصنف کا نہیں پتہ چل سکا۔ انقلاب روس کے بعد زار روس کے حمایتوں نے بادشاہت کے حق میں پراپگنڈا کرنے کے لیے اس دستاویز کی تشہیر شروع کر دی اور یہود کو بالشویک انقلاب کا سرغنہ کہنے لگا۔ اس موقع پر دنیا پہلی دفعہ The protocol of elder of Zion سے متعارف ہوئی۔ درجنوں زبانوں کی اس کے تراجم ہوئے۔
یہاں سے یہود کے خلاف ایک نئی نفرت کی antisemitic لہر شروع ہوئی۔ یہودی سازش والا نظریہ مغرب میں مشہور ہوگیا۔ ہر چیز سے یہودی سازش برآمد کی جانے لگی۔ لوگ پہلی جنگ عظیم کو یہودی سازش قرار دینے لگے۔
ہٹلر کے جرمنی میں بچوں کے سکول نصاب میں یہ دستاویز داخل کرکے یہودی کے خلاف جرمنوں میں نفرت بھری گی جو بعدازاں ہالوکاسٹ کی ہولناک شکل میں نمودار ہوئی۔
لندن ٹائمز سمیت کئی بڑے جریدوں نے بعدازاں سے اس دستاویز کو من گھڑت قرار دیا تھا اور اسے راز روس کی خفیہ پولیس کا شاخسانہ قرار دیا اور یہ تھا بھی۔ مگر مغرب کی یہودی سازش والی الرجی مشرق کے مسلمانوں کو لاحق ہوگی۔
عرب اسرائیل جنگ کے بعد اس سازشی نظریئے کو مزید تقویت پہنچی۔ ساٹھ اور اسی کی دہائی میں صرف عرب میں پچاس ایسی کتابیں چھپیں جو پروٹوکول آف زائون سے متاثر تھیں۔ یہودیوں کو الومناتی اور فری میسن کے ساتھ نتھی کرکے ایسا مغلوبہ تیار کیا گیا کہ جیسے یہود انسان نہیں ایلین ہیں۔
ہمارے اپنے ڈاکٹر اسرار احمد کسی زمانے میں ماہر صہونیات بنے پھرتے تھے۔ یہودی ورلڈ آرڈر اور الومناتی کے پکوڑے اکثر تھوک میں تلا کرتے تھے۔ آج بھی ہمارے خلافتی بھائی ان کے دعوؤں کو دور اندیش پشین گوئیاں تصور کرتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر کی صہونیات والی گنگا کی گنگوتری بھی وہی کتابچہ تھا۔
بے عمل اور جمود کا شکار لوگ سازشی تھیوریز سے گزرا چلاتے ہیں۔ انھیں اپنی ذلت و پستی کا ذمہ دار قرار دینے کیے لیئے کوئی چاہئے ہوتا ہے۔ ہم اتنے ویلے ہیں کہ اتنی محنت اپنی حالت بہتر بنانے میں نہیں کرتے جتنی یہودی سازش کھودنے میں کرتے ہیں۔
کسی دور میں جماعت اسلامی والوں نے اعلی تحقیق کے بعد Pepsi کو یہودی سازش قرار دے کر اس کا مطلب pey every pins to serve isreal نکال لیا تھا۔ ہماری عوام اس کے بعد بغیر تحقیق کیئے پیپسی فوبیا کا شکار ہوگی۔ سارے لٹھ کے بائیکاٹ پر تل گے۔ کسی نے بھی یہ تحقیق کرنے کی زحمت گورارہ نہ کی کہ پیپسی اسرائیل کے وجود سے بھی پچاس سال قبل امریکی کیمیاءدان calab bradhm نے بنائی تھی اور پیپسی کا مطلب جماعتیوں والا نہیں بلکہ یہ نام pepsin نامی اس مادے پر رکھا گیا جو معدے میں خوراک کو ہضم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
آج کل بھی بائیکاٹ چل رہا ہے۔ بائیکاٹ کرنا عوام کا حق ہے ضرور کریں۔ مگر پہلے پتہ بھی ہونا چاہے۔ نوے فیصد سے زائد عوام پیپسی، کوکولا اور میکڈونلڈ کو اسرائیلی کمپنیاں سمجھ کر گنگھرو توڑ کر بیچ سڑک پیپسی اور کوکا کولا کی بوتلیں انڈیل رہے ہیں۔ خیر آدھے سے زیادہ پاکستانی میکڈونلڈ کی شکل بھی دیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیئے وہ فی الحال پیپسی والی حالت سے بچا ہوا ہے۔ خیر یہ سب اسرائیلی نہیں امریکہ کمپنیاں ہیں۔ ان کا اسرائیل میں ویسا ہی بزنس ہے جیسا پاکستان میں۔ صرف کوکا کولا کی سیل پاکستان میں اسرائیل سے چار گنا زیادہ ہے۔ اگر یہی میعار بنانا ہے تو پھر کیا کولا کولا کو بھی پاکستانی کمپنی ہونا چاہے۔
مگر ہمارا بائکاٹ خاصا منافق ہے۔ صرف سستی چیزوں پر پر ہی بائکاٹ کا لاوا نکلتا ہے۔ مہنگی والی یہود ساختہ اشیاء آج بھی ہم تجوریاں اور بکسوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں۔
ہمیں بائکاٹ کی نہیں"پیپسی فوبیا" سے نجات کی ضرورت ہے۔