Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Afifa Shahwar
  4. Pakistan Mein Qanoon Ki Baladasti

Pakistan Mein Qanoon Ki Baladasti

پاکستان میں قانون کی بالادستی

پاکستان کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو وقتی طور پر متنازع ضرور نظر آتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہی واقعات ایک نئے قومی شعور کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو سنائی جانے والی سزا محض ایک فرد کے احتساب تک محدود نہیں بلکہ یہ اس طویل سفر کی علامت ہے جس پر پاکستان بالآخر قانون کی حکمرانی، ادارہ جاتی توازن اور آئینی بالادستی کی سمت چل پڑا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ماضی میں طاقتور افراد کا احتساب ایک خواب سمجھا جاتا تھا، وہاں ایک سابق انٹیلی جنس سربراہ کو سزا ملنا غیر معمولی تبدیلی کا اعلان ہے۔

پاکستان میں برسوں سے یہ تاثر مضبوط رہا ہے کہ کچھ ادارے اور کچھ عہدے قانون سے بالاتر ہیں۔ سیاست دان احتساب کے عمل سے گزرتے رہے، عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرتے رہے، مگر ریاستی طاقت کے مراکز اکثر سوال سے محفوظ رہے۔ یہی عدم توازن قومی سیاست، جمہوریت اور عوامی اعتماد کے لیے سب سے بڑا نقصان ثابت ہوا۔ فیض حمید کی سزا نے اسی تاثر کو توڑنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس فیصلے نے یہ پیغام دیا ہے کہ ریاست اب شخصیات کے گرد نہیں بلکہ آئین کے گرد منظم ہونا چاہتی ہے۔

فیض حمید کا نام حالیہ برسوں میں محض ایک فوجی افسر کے طور پر نہیں بلکہ ایک سیاسی کردار کے طور پر بھی لیا جاتا رہا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے منصب کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی عمل میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جو کسی بھی جمہوری ریاست میں ناقابل قبول ہے۔ اگر ریاستی ادارے سیاسی میدان میں غیر جانبدار نہ رہیں تو انتخابات محض رسمی کارروائی بن کر رہ جاتے ہیں اور عوامی مینڈیٹ اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ اس پس منظر میں فیض حمید کے خلاف کارروائی ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ اب سیاسی انجینئرنگ کو ریاستی پالیسی کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔

فیض حمید کی سزا کا ایک اور اہم پہلو ادارہ جاتی احتساب ہے۔ اگر اداروں کے اندر خود احتسابی کا نظام موجود نہ ہو تو وہ طاقت کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ فیصلہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ریاست اب اپنے اداروں کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ مضبوط ادارے وہ ہوتے ہیں جو غلطی کرنے والوں کو خود جواب دہ ٹھہرا سکیں۔ اس سے اداروں کی ساکھ بہتر ہوتی ہے اور عوام کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔

یہ تبدیلی پاکستان کے لیے اس لیے فائدہ مند ہے کیونکہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ تبدیلی پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کاری، سفارتی تعلقات اور اسٹریٹجک شراکت داری کا انحصار محض وسائل پر نہیں بلکہ نظامِ انصاف کی ساکھ پر بھی ہوتا ہے۔

پاکستان کے عوام برسوں سے انصاف، شفافیت اور برابری کی بات کرتے آئے ہیں۔ وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں قانون کمزور اور طاقتور دونوں کے لیے یکساں ہو۔ فیض حمید کی سزا اس خواہش کی سمت ایک عملی قدم ہے۔ یہ فیصلہ اس امید کو زندہ کرتا ہے کہ شاید اب وہ پاکستان تشکیل پا رہا ہے جہاں فیصلے بند کمروں میں نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہوں گے۔

مختصراً، قومیں نعروں سے نہیں بلکہ فیصلوں سے بنتی ہیں۔ فیض حمید کی سزا ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ بتاتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں طاقت کا سرچشمہ شخصیات نہیں بلکہ قانون ہوگا۔ اگر یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہا، اگر احتساب بلا تفریق ہوتا رہا، تو یہی تبدیلی پاکستان کو ایک مضبوط، مستحکم اور باوقار ریاست بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

Check Also

Jila Watni Se Iqtidar Tak

By Shair Khan