Aik Anokha Hakeem
ایک انوکھا حکیم

یونان کے بادشاہ کے ہاتھ ایسی کتاب لگی جو ملک کے مایہ ناز حکیم کے تجربات کا نچوڑ تھا، وہ بڑے شوق سے کتاب پڑھنے لگا، ایک جگہ لکھا تھا کہ "تربوز کھانے کے بعد دودھ پینے سے درد قولنج میں مبتلا ہوگا" بادشاہ نے سوچا کہ اس کو آزما لینا چاہیے، اس نے ایک صحت مند کسان کو بلایا اور اسے تربوز کھانے کو دیا، وہ پیٹ بھر کے کھا چکا تو دودھ کا ایک گلاس اسے پینے دیا اور اس کی حالت کا بغور جائزہ لینے لگا، کافی دیر بعد بھی جب اسے کوئی درد کا احساس نہیں ہوا تو بادشاہ نے بڑے غصے میں حکیم کے بیٹے کو بلایا اور ماجرا دریافت کیا۔
حکیم کے بیٹے نے جو خود بھی حکمت جانتا تھا کہا کہ اسے تین ماہ کی مہلت دی جائے تین ماہ بعد وہ اس سوال کا جواب دے گا۔ بادشاہ نے اجازت دی اور حکیم کا بیٹا کسان کو گھر لے آیا اور آرام دہ کمرے میں رکھا، بہترین کھانا دیا اور ہر ہر طرح سے اس کا خیال رکھا۔ کسان نے ایسے لذیذ کھانے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا سو وہ عیاشی سے زندگی گزارنے لگا۔ تین ماہ بعد حکیم کا بیٹا کسان کو ساتھ لئے دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ نے ایک بار پھر اسے تربوز کھانے کو دیا پھر دودھ بھی پلایا، ابھی آدھ گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا بیچارہ کسان پیٹ پکڑ کر درد سے تڑپنے لگا۔
بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی اور ماجرا دریافت کیا تو حکیم کے بیٹے نے کہا "جناب عالی یہ کسان پہلے روکھی سوکھی کھاتا اور خوب محنت کرتا، عام ندی کا پانی پیتا اور خون پسینہ ایک کرتا تھا جس سے اس کی صحت قابل رشک اور معدہ لکڑ ہضم پتھر ہضم بنا ہوا تھا، میں نے تین ماہ تک اسے آرام طلبی اور عیاشی پہ لگایا، منرل واٹر پلایا اور سوفٹ ڈائٹ پہ رکھا، تین ماہ میں اس کی طبیعت شاہانہ اور مزاج نازک بنا تبھی تربوز کے ساتھ دودھ پینے پہ اسے تکلیف ہوئی۔
بادشاہ حکیم کے بیٹے کی ذہانت سے بڑا متاثر ہوا، اس قسم کے قابل و زیرک حکیم ہمارے ہاں بھی تھے اگر آپ کو یقین نہیں آئے تو ماضی قریب میں وفات پانے والے بزرگ حکیم سید حسن شاہ پلپلدو کھرمنگ کے بارے میں کسی بزرگ سے دریافت کریں، آپ اپنے زمانے کے حکیم حاذق تھے اور نبض پہ ہاتھ رکھ کر مریض کی ہسٹری بیان کرتے، بلتستان بھر میں ان کی حکمت مشہور تھی اور لوگ دور دور سے علاج کےلئے ان کے پاس آتے اور شفایاب ہوکر لوٹتے۔ انہوں نے لکھنؤ سے یہ ہنر سیکھا تھا اور قدیم نسخے و مخطوطات کا سرمایہ ان کے پاس تھا، ان کی وفات کے بعد بھی کئی سال تک ان کی الماریاں ایسی نادر و نایاب قلمی کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔
ان کے بارے میں بزرگوں سے جو کچھ سنا وہ من و عن لکھنے کی کوشش کرتا ہوں یقیناً میری طرح آپ پر بھی حیرت کے دروازے کھلیں گے کہ ایسی نایاب ہستیاں بھی مردم خیز سرزمین بلتستان نے پیدا کئے۔۔ باغیچہ کھرمنگ کے ایک پڑھے لکھے بزرگ نے بتایا کہ ان کے پیٹ میں درد رہتا اور ایلوپیتھک علاج سے وقتی افاقہ ہوتا مگر درد کچھ عرصے بعد پھر نمودار ہوتا، بہرحال ایک دن وہ پلپلدو گاؤں گیا اور حکیم آغا صاحب کے پاس پہنچے، آغا صاحب نے نبض پہ ہاتھ رکھ کے کہا آج آپ چونکہ پانی میں پاؤں ڈبوتے ہوئے آئے ہو اس لئے میں علاج نہیں کرسکتا، آغا صاحب کے گھر کے قریب ایک ندی تھی جس کا پل ان دنوں اٹھایا ہوا تھا اس لئے اس شخص نے اگلے دن پانی میں پیر ڈبوئے بغیر کافی دور سے گھوم کے آغا صاحب کے ہاں پہنچا تو نبض پہ ہاتھ رکھ کے کہا کہ آپ اپنی بیگم کی قربت سے ہو کے آئے ہو اس لئے میں علاج نہیں کرسکتا۔۔ وہ بندہ بہت حیران ہوا کہ چلو کل تو ندی سامنے ہے تو انہوں نے اندازے سے کچھ کہا ہوگا مگر آج میں کس حال میں ہوں کسی کو کیا پتا۔۔
خیر اس سے اگلے دن وہ پھر ان کی خدمت میں پہنچا تو نبض پہ ہاتھ رکھ کے انہوں نے کہا ہاں آج نبض کلئر ہے میں علاج کرسکتا ہوں۔ نبض پہ ہاتھ رکھے وہ بولے کہ تین سال ہوئے بچھڑے کا ایسا گوشت آپ کھا چکے ہو جو درست طریقے سے صاف نہیں ہوا تھا اور تھوڑے بہت بال بھی چمڑے پہ تھا جس کی وجہ سے وہ پیٹ میں جمع ہوکے سخت پتھر کی مانند بن چکا ہے جس کی وجہ سے تکلیف ہے، کچھ دوائی بنا کے دی، تین دن بعد پیچیش ہونے کی کوئی دوائی دی یوں وہ بندہ بالکل صحت یاب ہوگئے۔۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایک شخص نے تیز دھوپ میں، سخت پیاس کے عالم میں کہیں سے جھک کے پانی پیا، پانی میں کوئی کنکھجورا (ہزار پا) بہتا چلا آ رہا تھا کہ اس کے پیٹ میں چلا گیا۔ جس سے وہ شخص بیمار پڑگیا اور جب کنکھجورا حرکت کرتا تب اسے بڑی تکلیف ہوتی، گرتا پڑتا حکیم آغا حسن کے پاس پہنچا، آغا صاحب نے اسے کٹورا بھر کے چربی پگھلا کے پینے کو دیا، پھر فوراََ یخ ٹھنڈا پانی پینے کو دیا اور اس کے حلق میں انگلی ڈال کے اسے الٹیاں کروائیں، الٹی میں منجمد چربی کے لوتھڑے نکلے، انہوں نے دو تنکوں کی مدد سے ان لوتھڑوں کو کھولنے کو کہا تو کسی ایک لوتھڑے سے وہ کنکھجورا زندہ نکل آیا، جسے دیکھ کر سب عش عش کر اٹھے۔۔
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ بلڈ پریشر کا تصور بھی اس وقت نہیں تھا ایک شخص آیا، چہرہ سوجا ہوا اور سر درد سے پھٹا جا رہا۔ حکیم صاحب نے دریا کنارے سے ایک چمکدار گول پتھر لانے کو کہا، اس بندے کو کہا کہ ایک پیر سے اس پہ کھڑے ہوجاو اور پورے جسم کا وزن اسی ایک پیر پہ رکھ کے پتھر پہ گھوم جاؤ لٹو کی طرح، دو بار ہی گھوما تھا کہ اس کے ٹخنے پر ایک سیاہ رنگت کا رگ ابھر آیا، مریض کو اسی طرح اس چھوٹے سے چمکدار پتھر پر کھڑا رہنے کو کہا اور اس سیاہ رگ کو چیر دیا، خون کی ایک لکیر جوش سے اچھلتا ہوا نکلنا شروع ہوا جو اس مریض کے سر کے برابر تک پہنچ کے قریبی دیوار کو لہو رنگ کرتا۔۔ جب اس کی شدت کم ہوئی اور اچھلنے کے بجائے خون رسنا شروع ہوا تو مریض کو لٹا کے زخم پہ مرہم پٹی رکھی اور ساتھ ہی اس کے سر میں درد اور چہرے کی سوجن غائب۔۔ (اس نابغہ روزگار شخصیت کی باتیں ابھی جاری ہے)
(ممتاز ناروی کی کتاب "کرتخشہ سے کھرمنگ تک" کا ایک صفحہ)

