Pasandeeda Punjab, Sotela Punjab
پسندیدہ پنجاب، سوتیلا پنجاب

دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے سوتیلے پنجاب کے وہ اضلاع جو صدیوں سے تہذیب، قربانی، محنت اور خاموش برداشت کی علامت رہے ہیں، میڈم وزیر اعلٰی پنجاب کے ایک اور پراجیکٹ جسے انہوں نے بیوٹیکیفیشن پراجیکٹ (حُسن آرائی منصوبہ) کا بیوٹیفل (پری رُو) نام دیا ہے۔ اس میں بھی حسب معمول ایک بار پھر اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان جیسے قدرتی پری رُو اضلاع ریاستی توجہ کی فہرست میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان جیسے اضلاع نہ کسی نقشے سے غائب ہیں، نہ یہاں کے لوگ بے شناخت ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والی آنکھوں کو یہ علاقے اکثر دکھائی نہیں دیتے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ترجیحات پر اگر نظر ڈالی جائے تو انہیں بھی اپنے ابو جی اور چاچو جی، کی طرح لاہور، گجرانوالہ، فیصل آباد اور ان کا محدود مضافات ہی پنجاب معلوم ہوتے ہیں، باقی سب محض انتظامی خانے ہیں جنہیں فائلوں میں نمبروں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ ان کے نام پر بجٹ ایلوکیٹ کروایا جاتا اور پھر اپنے محدود پسندیدہ پنجاب کی ترقی پر بے دریغ اور بے خوف خرچ کیا جاتا ہے۔ بارہا توجہ دلانے کے باوجود ان اضلاع کی محرومیوں کو وہ اہمیت نہیں ملی جو ایک آئینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری کے تحت ملنی چاہیے تھی۔ بلکہ شاید یہ توجہ دلاؤ نوٹس ان میں ایک شدید تر منفی ردعمل، نفرت اور حقارت پیدا کرتا ہے کہ آپ ہوتے کون ہیں مجھے اپنی محرومیاں بتانے والے۔ میری مرضی ہے میں جو چاہوں کروں اور جو چاہوں نہ کروں۔ تاریخ میں اکثر ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور پھر تاریخ نے بھی حسب معمول پورا انصاف کرتے ہوئے ایسے بے انصاف کرداروں کو اپنے کوڑے دان میں ہی ڈالا ہے۔ آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔
یہ سوال اب محض ترقیاتی منصوبوں کا نہیں رہا، یہ سوال احساسِ شراکت کا ہے۔ ریاست کا کام صرف سڑکیں، پل اور عمارتیں بنانا نہیں ہوتا بلکہ شہریوں کو یہ یقین دلانا بھی ہوتا ہے کہ وہ سب برابر ہیں، چاہے وہ دارالحکومت کے قرب میں رہتے ہوں یا دریا کے کنارے دور افتادہ بستیوں میں۔ جب اقتدار چند مخصوص شہروں کے گرد گھومنے لگے تو باقی علاقوں میں محرومی صرف وسائل کی نہیں رہتی، احساس کی بھی ہو جاتی ہے اور احساس کی محرومی سب سے گہرا زخم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے اضلاع میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ پنجاب دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک پسندیدہ اور لاڈلا پنجاب اور دوسرا ناپسندیدہ اور سوتیلا پنجاب، جو ہر بجٹ، ہر منصوبے اور ہر ترجیح میں کہیں نظر نہیں آتا۔
اقتدار کی نفسیات بڑی عجیب ہوتی ہے۔ طاقت اور اختیار انسان کو سہولت تو دیتے ہیں، مگر بعض اوقات بصیرت چھین لیتے ہیں۔ کرسی جتنی بلند ہو، نیچے کے لوگ اتنے ہی چھوٹے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں حکمران، چاہے نیت میں کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں، لاشعوری طور پر ایک چھوٹے فرعون میں بدل جاتے ہیں۔
یہ اپنی اس فرعونیت کی کڑی سزائیں بھی بھگت چکے ہیں۔ مگر داد دینا پڑتی ہے انسانی استعدادِ فراموشی کو کہ وہ دوبارہ تخت نشین ہوتے ہی یہ سب کچھ فراموش کرنے میں دیر نہیں کرتے اور پھر سے اُسی سے ملتے جلتے چھوٹے سے فرعون بن جاتے ہیں۔ انہیں پھر سے لگنے لگتا ہے کہ بڑے شہر ہی اصل پنجاب ہیں، وہی ووٹ بینک ہیں، وہی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں، ہم اور ہمارے بچوں نے یہاں رہنا ہے، اس لیے باقی علاقوں کی فریادیں یا تو سنائی ہی نہیں دیتیں یا سن کر بھی نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ وزیراعلیٰ ان اضلاع سے دشمنی رکھتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان اضلاع کو اسی شدت سے اپنا سمجھتی ہیں جیسے لاہور، سیالکوٹ، گجرات، گجرانوالہ اور فیصل آباد کو؟
دریائے سندھ کے کنارے آباد یہ علاقے ترقیاتی اعتبار سے غریب سہی، مگر قدرتی وسائل اور قربانیوں میں انتہائی امیر ہیں۔ یہی وہ خطے ہیں جنہوں نے ملک کو فوجی جوان دیئے، محنت کش دیئے، بے انتیا قدرتی وسائل دیئے، خاموشی سے ٹیکس ادا کیے اور ہر مشکل وقت میں ریاست کے ساتھ کھڑے رہے۔ مگر بدلے میں انہیں کیا ملا؟ ٹوٹی سڑکیں، ناکافی ہسپتال، محدود تعلیمی سہولیات اور وہ احساس کہ وہ ترقی کے سفر میں مسافر نہیں بلکہ تماشائی ہیں۔ اگر ترقی کا پہیہ صرف چند شہروں میں ہی گھومے گا تو باقی پنجاب پیچھے رہ جائے گا اور پیچھے رہ جانے والے علاقوں کی محرومی آخرکار پورے صوبے اور ان لاڈلے شہروں کی ترقی، استحکام اور ماحولیات کو متاثر کرتی ہے۔ کہ محروم اضلاع کے لوگ سہولیات، کاروبار اور روزگار کی تلاش میں ان لاڈلے شہروں کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔ اس طرح یہاں آبادی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ یہ آلودگی اور رش کا باعث بنتا ہے۔ ان شہروں کی تہذیب اور مخصوص کلچر بھی متاثر ہوتے ہے۔ یہ کوئی جذباتی بات نہیں، یہ تاریخ اور سماجیات کا اٹل اصول ہے۔
یہ کالم کسی ذاتی عناد یا سیاسی مخالفت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک مہذب مگر چبھتی ہوئی یاددہانی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ سوال کرنا خلاف تہذیب نہیں کہ آخر اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی باری کب آئے گی؟ کیا یہ اضلاع پنجاب کا حصہ نہیں؟ کیا یہاں کے شہری کم محب وطن ہیں؟ یا ان کی محرومیاں صرف اس لیے کم اہم ہیں کہ وہ بڑے شہروں کے شور میں دب جاتی ہیں؟ حکمرانی کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ کمزور آوازوں کو کتنی سنجیدگی سے سنتی ہے، نہ کہ صرف ان آوازوں کو جو میڈیا کے مائیک تک پہنچ جاتی ہیں۔
آخر میں یہ بات کہ یقیناً اللہ سب کچھ پوری توجہ اور غور سے دیکھ رہا ہے۔ وہ محروموں کی آہ سنتا ہے، مگر دنیا میں عدل قائم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ ایک دن انہیں اس کا جوابدہ ہونا ہے۔ میڈم وزیراعلیٰ، اگر آپ کا پنجاب واقعی سب کا پنجاب ہے تو اپنی ترجیحات کے نقشے پر دریائے سندھ کے اس خوبصورت کنارے کو بھی شامل کیجیے۔ جائیے اور اس دریا کی خوبصورت لہروں کی روانی اور سُبک خرامی کا نظارہ کیجیے۔ وہاں سے بیوٹیفیکیشن کا نیا اور بے مثال آئیڈیا لیجیے اور اپنے اس نام نہاد اور محدود بیوٹیفیکشن پراجیکٹ کو بہتر بنا کر اور وسعت دے کر اس خطے کو بھی اس کا حصہ بنا لیجیے۔ یہاں آپ کو بہت کم محنت اور انتہائی کم اخراجات کرنا پڑیں گے۔
یہاں اٹک سے لے کر روہڑی تک ایک خوبصورت کوسٹل ہائی وے بن سکتی ہے۔ اس کی دونوں جانب خوبصورت دراز قد درخت لگ سکتے ہیں اور یوں پنجاب کو حُسن کو مثالی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ پراجیکٹ تفریح اور ٹورازم کا بہترین ذریعہ اور پورے پنجاب کی معاشی خوشحالی کا باعث ہو سکتا ہے۔ یہ اونچے لمبے درخت بارشوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ نیچے جاتا واٹر لیول اوپر آ سکتا ہے۔ ماحولیات پر بہت اچھے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ جس سے آپ کا پسندیدہ پنجاب بھی صاف ستھرا اور آپ کی راجدھانی لاہور آلودگی سے پاک ہو سکتی ہے۔
شاید یہاں کے لوگوں کو جمال آرائی، سڑکوں اور منصوبوں سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ بھی اسی پنجاب کا حصہ ہیں جس پر آپ حکمرانی کر رہی ہیں۔ پسندیدہ پنجاب کو توجہ دینا آسان ہے، اصل کمال ناپسندیدہ سمجھے جانے والے سوتیلے پنجاب کو گلے لگانے میں ہے۔ یہی وہ فیصلہ ہوگا جو تاریخ میں آپ کو محض ایک اوسط درجے کا منتظم نہیں، ایک منصف حکمران کے طور پر یاد رکھے گا۔

