Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Kahani Praetorian Guard Ki

Kahani Praetorian Guard Ki

کہانی پرائٹورین گارڈ کی

رومن ایمپائر جو طاقت اور ہیبت میں بے مثال سلطنت مانی جاتی تھی، اس کے اقتدار کا مرکز صرف سینیٹ، قانون یا عسکری فتوحات نہیں تھیں۔ اس اقتدار کے مرکز میں ایک ایسا گروہ موجود تھا جو بیک وقت محافظ، نگران اور فیصلہ ساز بن چکا تھا۔ یہ Praetorian Guard تھا، وہ منتخب شاہی فوجی دستہ جو شہنشاہ آگسٹس نے قائم کیا تھا تاکہ سلطنت کے سربراہ یا شہنشاہ کی جان کی حفاظت کی جا سکے۔

یہ عام لشکر کا حصہ نہیں تھے، بلکہ سلطنت کے طول و عرض سے سخت کسوٹی کے بعد انفرادی طور پر منتخب کردہ تجربہ کار سپاہی تھے، جو روم کے قلب میں تعینات رہتے، شہنشاہ کے قریب ہوتے اور جنگ و امن دونوں صورتوں میں اس کے ہمراہ سائے کی طرح رہتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے خفیہ نگرانی، داخلی سلامتی اور سیاسی کنٹرول کو اپنی ذمہ داریوں میں شامل کرلیا۔ یہی قربت اور یہی اختیار انہیں رفتہ رفتہ ریاست کے اندر ایک خود مختار قوت یا پھر سلطنت کے اندر سلطنت بناتا چلا گیا۔

ابتدا میں یہ دستہ نظم و ضبط اور وفاداری کی مثال سمجھا جاتا تھا، مگر جیسے جیسے شہنشاہوں کی کمزوریاں بڑھیں، محافظوں کی طاقت بھی بے لگام ہوتی گئی۔ وہ قانون کے تابع نہیں رہے، بلکہ قانون کو اپنے حق میں موڑنے لگے۔ سینیٹ ان سے خائف تھی، عوام ان سے دور اور شہنشاہ ان پر منحصر۔ اس انحصار نے طاقت کا توازن بدل دیا۔ اب تخت کا فیصلہ میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ محل کے اندر، خاموش راہداریوں میں ہونے لگا۔

جو شہنشاہ اس دستے کی آنکھ میں کھٹکتا اسے کسی سازش کا شکار کرکے ختم کردیا جاتا تھا۔

شہنشاہ Commodus کے قتل کے بعد یہ اندرونی بگاڑ پوری طرح سامنے آ گیا۔ اب سلطنت کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو نظم بحال کر سکے اور رومن ایمپائر کے ہر ادارے کو حقیقی معنوں میں اپنی حدود کا پابند بنا سکے۔ Pertinax کو تخت سونپا گیا، جو عمر رسیدہ، اصول پسند اور ریاستی نظم کا حامی تھا۔ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی کرپشن پر قدغن لگائی اور Praetorian Guard کی غیر معمولی مراعات اور بجٹ محدود کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نزدیک محافظ سلطنت کے ملازم تھے، مالک نہیں۔ مگر محافظوں کے نزدیک یہ سوچ ناقابلِ قبول تھی۔

چند ہی مہینوں میں فیصلہ ہوگیا۔ مارچ 193ء کی ایک صبح Praetorian Guard کا شاہی دستہ محل میں داخل ہوا اور Pertinax کو قتل کر دیا۔ یہ قتل کسی عوامی بغاوت یا بدنظمی کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ طاقت کے اندرونی تصادم کا منطقی انجام تھا۔ اس لمحے یہ بات ہر خاص و عام پر واضح ہوگئی کہ روم میں اقتدار کا اصل محور کہاں منتقل ہو چکا ہے۔

شہنشاہ Pertinax کی موت کے بعد روم ایک غیر معمولی صورتِ حال سے دوچار تھا۔ سینیٹ بے بس، عوام غیر مؤثر اور صوبائی فوجیں شہر سے باہر تھیں۔ اس خلا میں Praetorian Guard نے وہ قدم اٹھایا جس کی رومی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں تھی۔ انہوں نے امرا، رؤسا کو مدعو کیا کیمپ کو اندر سے بند کیا اور جرنیلوں نے اعلان کیا کہ وہ سلطنت کے مطلق العنان حکمران ہیں لیکن بظاہر شہنشاہ، سلطنت کا کوئی دوسرا شخص ہوگا اور اس کے انتخاب کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ رومن ایمپائر اور اقتدا کی بولی لگے گی، جو زیادہ قیمت دے سکے گا وہی شہنشاہ ہوگا۔ یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ کھلم کھلا فیصلہ تھا۔ اقتدار کا فیصلہ اب روایت یا اہلیت سے نہیں، مالی طاقت سے طے ہونا تھا۔

اس بولی میں دو امیدوار سامنے آئے ایک Titus Flavius Sulpicianus، جو مقتول شہنشاہ کا سسر تھا اور خود کو فطری جانشین سمجھتا تھا اور دوسرا Didius Julianus، جس کے پاس بے پناہ دولت تھی مگر عوامی حمایت نہیں۔ قیمت بڑھتی گئی محافظ دستہ ہر بولی پر ویسے ہی ہاؤ کار مچاتا جیسے بازار میں کسی جنس کی فروخت پر مچتا تھا، حتمی فیصلہ محافظوں کے ہاتھ میں تھا۔ آخرکار Julianus کی پیشکش قبول کر لی گئی جو اس نے یہ طے کی کہ ہر محافظ کو اتنی دولت ملے گی جتنی وہ پوری زندگی میں کما نہیں سکتا تھا۔ اس لمحے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت ایک مالی معاہدے کے تحت منتقل ہوگئی۔

نو منتخب Julianus کو تخت تو مل گیا، مگر اقتدار نہیں۔ سینیٹ نے دباؤ میں آ کر اس کی توثیق کی، مگر عوام نے اسے مسترد کر دیا۔ اس کی حکومت ابتدا ہی سے غیر مستحکم تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا اقتدار محافظوں کی وفاداری پر قائم ہے اور محافظ جانتے تھے کہ وہ ایک عارضی انتظام سے زیادہ کچھ نہیں۔

چند ہی ہفتوں میں حالات بدل گئے۔ صوبوں کی فوجوں نے اس مضحکہ خیز شہنشاہیت اور عوامی رائے کی بے توقیری کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا اور کیل کانٹے سے لیس ہوکر روم کے مرکز کی طرف بڑھنے لگیں۔ سینیٹ نے اپنی پوزیشن بدلی اور Julianus کو محل میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد Praetorian Guard کو تحلیل کر دیا گیا۔ وہ دستہ جو ایک وقت میں شہنشاہ بناتا اور گراتا تھا، ریاست کے لیے ناقابلِ قبول قرار دے کر جرنیلوں کو قتل کردیا گیا اور دیگر کو عمر بھر کے لیے زندانوں میں ڈال دیا۔

یہ واقعہ رومی تاریخ میں محض ایک سیاسی بحران نہیں، بلکہ ایک اصولی حقیقت کی مثال بن گیا۔ جب ریاست کی حفاظت پر مامور ادارے خود احتسابی سے آزاد ہو جائیں، تو وہ حفاظت نہیں کرتے، بلکہ اقتدار کو غیر مستحکم کرتے ہیں۔ Praetorian Guard اپنی طاقت کے عروج پر تھی، مگر اسی طاقت نے اس کے خاتمے کی بنیاد رکھی۔ رومن سلطنت اس دن ختم نہیں ہوئی تھی، مگر اس دن یہ طے ہوگیا کہ طاقت اگر قانون اور ذمہ داری سے الگ ہو جائے، تو وہ دیرپا نہیں رہتی چاہے وہ سلطنت کے قلب سے کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو۔

Check Also

Iqra Liaqat Ki Kamyabi Ki Kahani

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi