Jila Watni Se Iqtidar Tak
جلا وطنی سے اقتدار تک

پاکستانی سیاست کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو وقتی نظر آتے ہیں مگر دراصل نسلوں کی سیاست کا رخ متعین کر دیتے ہیں۔ نواز شریف کی جلاوطنی بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا وہ دن جب ایک منتخب وزیرِ اعظم کو وردی کے زور پر اقتدار سے بے دخل کرکے ملک سے نکال دیا گیا محض ایک فرد کی تذلیل نہیں تھی یہ ووٹ آئین اور عوامی اختیار کی اجتماعی بے عزتی تھی مگر طاقت کے ایوانوں میں اُس وقت یہ گمان غالب تھا کہ نواز شریف تاریخ کا قصہ بن چکا ہے۔
جدہ کی خاموش فضاؤں میں گزری وہ جلاوطنی محض جسمانی فاصلہ نہیں تھی یہ ایک سیاسی ریاضت تھی نواز شریف وہاں تنہا نہیں تھے ان کے ساتھ ایک خاندان تھا ایک بیانیہ تھا اور ایک بیٹی تھی جو سیاست کے زخموں کو آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ مریم نواز اُس وقت صرف ایک بیٹی تھی مگر اقتدار کی بے رحمی جرنیلی غرور اور سیاسی بے توقیری اس کے شعور میں آہستہ آہستہ ایک سوال بن کر اتر رہی تھی کیا اختیار ہمیشہ بندوق کے پاس ہی رہے گا؟
وقت گزرتا رہا مشرف گیا وردیوں کے چہرے بدلے مگر اسٹیبلشمنٹ کا مزاج کم و بیش وہی رہا نواز شریف واپس آئے اقتدار ملا، پھر چھینا گیا عدالتی فیصلے، نااہلیاں، سزائیں یہ سب کسی فلم کی قسطیں نہیں تھیں بلکہ ایک خاندان کی مسلسل آزمائش تھی پانامہ سے لے کر کوٹ لکھپت تک اور پھر لندن کی جلاوطنی نما مجبوری ہر مرحلے پر پیغام ایک ہی تھا: سیاست کرو، مگر ہماری مرضی سے۔ اسی دوران مریم نواز سیاست میں صرف شامل نہیں ہوئیں وہ سیاست بن گئیں جلسوں میں للکار، عدالتوں میں پیشیاں جیل کی کوٹھڑی یہ سب کسی سیاسی وارث کی تربیت تھی۔
اس تربیت میں سب سے بڑا سبق یہی تھا کہ طاقت سے ٹکراؤ ہمیشہ نعروں سے نہیں جیتا جاتا، کبھی کبھی صبر، وقت اور موقع ہی سب سے بڑا ہتھیار ہوتے ہیں پھر منظر بدلا ووٹ کی سیاست ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئی وہی خاندان جسے کبھی ناقابلِ قبول سمجھا گیا تھا، ایک بار پھر فیصلہ سازی کے مرکز میں آ کھڑا ہوا اور یہاں آ کر وہ لمحہ آیا جسے تاریخ شاید ایک فٹ نوٹ میں لکھے مگر معنی کے اعتبار سے وہ پورا باب تھا آرمی چیف کے نوٹیفکیشن میں تاخیر یہ تاخیر کسی فائل کی سستی نہیں تھی یہ یاد دہانی تھی یاد دہانی اُس دن کی جب نواز شریف کو ایک فون کال پر اقتدار سے اٹھا دیا گیا تھا یاد دہانی اُس تذلیل کی جو ایک باپ نے بطور وزیرِ اعظم سہی تھی مریم نواز نے نہ تقریر کی، نہ الزام لگایا، بس وقت کو روک لیا اور طاقت کو انتظار پر مجبور کر دیا۔
سیاست میں انتظار سب سے بڑی توہین ہوتی ہے، خاص طور پر اُن کے لیے جو عادتاً حکم دیتے آئے ہوں اس ایک لمحے میں طاقت کا توازن واضح ہوگیا پیغام سادہ تھا: اب فیصلے یکطرفہ نہیں ہوں گے اب جھکاؤ صرف سیاستدانوں کا مقدر نہیں آج معتبر ذرائع کی سرگوشیاں ہوں یا سیاسی قرائن حقیقت یہ ہے کہ اس لمحے نے ایک نفسیاتی برتری قائم کی وہی ادارے جو کبھی نواز شریف کو نااہل اور ناقابلِ اعتبار کہتے تھے اب اسی خاندان کے سیاسی تسلسل کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست میں یہ محتاجی ہی اصل فتح ہوتی ہے نواز شریف کی جلاوطنی سے لے کر آج تک کی یہ کہانی دراصل انتقام کی نہیں تسلسل کی ہے۔
یہ اس بات کی کہانی ہے کہ وقت اگر ہاتھ آ جائے تو تاریخ خود سر جھکا دیتی ہے۔ مریم نواز نے شاید اپنے باپ کی بے عزتی کا بدلہ کسی انتقامی فیصلے سے نہیں لیا بلکہ ایک علامتی توقف سے لیا اور یہی سیاست کی سب سے مہذب، مگر سب سے کاری ضرب ہوتی ہے۔ آخر میں سوال یہ نہیں کہ کون جھکا اور کون کھڑا رہا اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک اب بھی شخصیات کے انتقام پر چلے گا یا ادارہ جاتی توازن کی طرف بڑھے گا۔ تاریخ نے فی الحال صرف اتنا لکھا ہے کہ جسے کل نکالا گیا تھا، آج اسی کے نام پر فیصلے ہو رہے ہیں باقی فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
اقتدار ایک پرانا قلعہ ہے جس کی دیواریں وقت کی بارشوں سے کھوکھلی ہو چکی ہیں جب دروازہ کھلتا ہے تو اندر سے نکلنے والا بادشاہ اپنے تاج کو ہاتھ میں اٹھائے باہر آتا ہے اور نیا آنے والا اسی تاج کو زمین پر رکھ کر اسے پاؤں تلے روندتا ہے نہ چیخ، نہ شور بس ایک خاموش قدم کی آواز جو تاریخ کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے سیاست میں شکست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے جو اپنے بچے کو سینے سے لگائے روتی تو ہے مگر آنسوؤں کو چھپا کر مسکراہٹ سجاتی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے دن جب لاہور کی گلیوں میں خاموشی چھا گئی وہ خاموشی دراصل ایک ماں کا وہ صبر تھا جو اپنے زخمی بیٹے کو دیکھ کر بھی کہتی ہے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وقت ایک دریا ہے جو اپنے کناروں کو خود کاٹتا چلا جاتا ہے جنرل باجوه جب ریٹائر ہو رہے تھے تو لگتا تھا جیسے دریا نے ایک موڑ لے لیا ہو کل تک جن پتھروں پر پانی کی دھار گرتی تھی۔
آج وہ پتھر خود پانی میں ڈوبے نظر آ رہے تھے کوئی تالی نہیں بجی کوئی نعرہ نہیں لگا بس ایک خاموش لہر اٹھی اور سب کچھ بہا لے گئی۔ عدالت کے فیصلے کبھی کبھی ایک بوڑھے درخت کی طرح ہوتے ہیں جس کی جڑیں زمین میں گہری اتری ہوئیں مگر شاخیں ہوا کے ایک جھونکے سے ٹوٹ کر گر جاتی ہیں۔ جب توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آیا تو لگا جیسے وہ درخت خود اپنی شاخیں کاٹ رہا ہو نہ درد کی آواز نہ شکوہ بس ایک خاموش گراوٹ جو برسوں تک گونجتی رہے گی۔ مریم نواز جب وزیراعلیٰ بنیں تو لگا جیسے کوئی پرانی کتاب کا وہ صفحہ پلٹ گیا ہو جس پر باپ کی تحریر تھی بیٹی نے اس صفحے پر اپنا نام نہیں لکھا بس خاموشی سے اسے آگے بڑھا دیا اور تاریخ نے خود لکھ دیا کہ اب قلم بدل چکا ہے مگر سیاہی وہی ہے یہ سب مثالیں اسی ادبی لہجے کی ہیں کوئی الزام نہیں کوئی نعرہ نہیں صرف ایک منظر ایک علامت ایک خاموش مکالمہ جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔

