Pattoki Ke Araeen Bamuqabla Mayo
پتوکی کے آرائیں بمقابلہ میو

ابتدا ہی سے اس دنیا پہ دماغ کی حکومت رہی ہے۔ ماضی میں تگڑا جسم بھی دماغ کے ہم پلہ رہا اور کبھی اس سے زیادہ اہم تھا۔ کیونکہ وہ جسمانی مشقتوں کا دور تھا۔ مگر آج کے مشینی دور میں حکمرانی صرف دماغ کی ہے۔ جو فرد یا قوم دماغ سے جتنا بہتر کام لے گا، ترقی کے مواقع اس کے لیے اتنی ہی زیادہ ہوں گے اور جو قومیں دماغی اعتبار سے سست ہوں گی، ان کے نصیب میں سوائے گزر بسر کے، تنگی ترشی کے کچھ نہیں ہوگا۔ سسک سسک کے جینا ان کا مقدر لکھ دیا جاتا ہے۔
دیکھیں! یہ دنیا خدا اسباب کے تحت چلا رہا ہے۔ اسے اس سے کچھ غرض نہیں کہ اسباب استعمال کرنے والا کافر ہے یا مسلمان یا مسلمانوں کی کون سی قوم ہے۔ اس کی عطا کا حقدار وہی ہے جو ٹھیک وقت پہ ٹھیک فیصلے کرتا ہے۔ ذہنی طور پر تیز فرد ہو یا قوم یا ملک، ترقی وہی کرے گا۔ قدرت صرف انھیں عروج بخشتی ہے، جو چالاک ہوں، ہوشیار ہوں۔
پچھلے دنوں ایک دوست ذکر کر رہے تھے کہ فلاں سرمایہ دار کا ایک ڈرائیور آج ایک عدد کوٹھی اور بڑی گاڑی کا مالک ہے۔ اس کی ترقی کا راز یہ تھا کہ اس نے اپنے باس سرمایہ دار کے بزنس پارٹنر کا مزاج اور بزنس کا ماحول سمجھا اور پھر اس پارٹنر کو ایک اور پارٹنر لا کر دیا اپنے آدھے پرافٹ پہ۔ پھر ایک ادھ سال ہی میں وہ پاؤں پہ کھڑا ہوگیا۔ اس کے عجب رنگ ڈھنگ دیکھ کر، اس کا لائف سٹائل جان کر اس کا باس حیران رہ گیا۔
یہ کیا ہے! دماغ کا ٹھیک استعمال۔ اپنے حق میں موقع پیدا کرنا اور پھر اس سے فائدہ اٹھانا۔ قوموں کا بھی یہی حال ہے۔ میرا تعلق پتوکی کی قوم آرائیں سے ہے اور دردِ دل سے لکھنا پڑتا ہے کہ دماغی حوالے سے جتنی سست یہ قوم ہے، شاید ہی کوئی اور ہو۔ ترقی کے جتنے مواقع اسے ملے، شاید ہی کسی اور کو ملے ہوں۔
ویسے تو "سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" مگر اپنوں کے غم سوا ہوتے ہیں۔ جو علاقہ اپنا مولد ہو، جائے پیدائش ہو، جہاں انسان پلا بڑھا ہو، اس سے انسیت ایک خاص درجے میں ہوتی ہے۔
مجھے غم ہے، شدید غم کہ میری قوم ترقی نہیں کر سکی۔ کثیر تعداد میں ہونے کے باوصف ان قوموں سے پیچھے رہ گئی، جو ان کے تقابل میں چوتھائی بھی نہیں۔ میو قوم کتنی ہوگی! لاکھوں میں نہیں، چند ہزار، مگر چالاک اس قدر ہے کہ بڑے بڑے مناصب پہ براجمان ہے۔ ہر اونچی پوسٹ پہ میو بیٹھا ہے۔ آرائیوں کی سخت بھیڑ کو چیرتے ہوئے ان سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر انھیں خوب آتا ہے۔
اندازہ لگائیں! محض چند ہزار نفوس پہ یہ مشتمل قوم، "ڈھائی ٹوٹلو" اور 2008ء میں انھوں نے اپنا ایم۔ پی۔ اے (امجد میو) بنوا لیا۔
پھر اس نے بڑی بڑی پوسٹوں پہ چن چن کر میو لگائے اور خوب لگائے۔ کسی آرائیں کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ برادری پرست قوم کا برادری پرست بندہ تھا۔ اس کے دور میں میواتی قوم "نوں خوب جاگاں لگیاں" ایک میو سیٹ پہ بیٹھتا، تو وہ باقی رشتے داروں اور دوستوں کو بھی کھینچ تان کر اس محکمے میں لے آتا۔ ایک دوڑ لگی تھی۔ ایک سیاست دان سے بہتر کون جانتا ہے کہ کس جماعت کی حکومت کب تک ہے اور آئندہ کس کی ہوگی۔ اس نامراد کو پتا تھا کہ اس کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت کبھی نہیں آنے کی۔ سو، جو لوٹا جا سکتا ہے لوٹ لو۔ وسائل کا رخ اس نے اپنی قوم کی طرف موڑ دیا۔ میواتیوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں تھا۔ اس کے پورے عرصے میں اس کی قوم کے دن عید اور راتیں شبرات تھیں۔
اور ہم؟ کچھ نہ پوچھو! آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا۔ ہماری جھولی خالی تھی، سو خالی رہی۔ اس اللہ مارے نے اتنی اندھیر نگری مچا رکھی تھی کہ بینظیر انکم سپورٹ کی ساری خیرات اپنی قوم کی جھولی میں ڈال دی۔ آج ہزاروں کی تعداد میں اس قوم میں کروڑ پتی ہو چکے ہیں۔ آرائیوں کی دوڑ بس پتی ہونے اور بچے پیدا کرنے تک ہی رہی۔
یا للعجب! آرائیں ان سے چار گنا زیادہ، مگر کچھ بھی نہیں کر سکے۔ تاریخ میں صرف ایک بار ہی اپنا ایم۔ پی۔ اے بنوایا، وہ بھی تساہل پسند۔ چند ایک کام یقیناً اس کے کریڈٹ پہ ہیں، مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ آرائیں قوم کی بہتری کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا، موصوف وہ نہیں کر پائے۔
ہمارے عزیز ایڈووکیٹ اسحق صاحب نے آرائیں اور میو قوم کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ایک بار تبصرہ کیا تھا کہ آرائیوں میں پھوٹ ڈال کر یہ قوم آگے بڑھی ہے۔ ہم زندگی میں صرف ایک بار ہی اپنی قیادت چن سکے اور جسے چنا، وہ کچھ زیادہ ہی شریف نکلا۔
حیرت ہے! موجودہ حالات میں بھی ان کی روش نہیں بدلی۔ بعضوں نے نکئی خاندان کو اپنا "اللہ میاں" بنا رکھا ہے تو کچھ، رانا قوم کے آگے "سجدہ ریز" ہوئے پڑے ہیں۔ یعنی ماضی سے جان نہیں چھڑا پائے۔ ساری دنیا سیانی ہوگئی، یہ نہیں۔ بڑوں کی طرح یہ بھی دائرے کے سفر کے عادی ہیں۔ قوم کا ہر جتھا اپنی ڈیڑھ اینٹ مسجد بنا کے بیٹھا ہے اور اس ناسمجھداری کو اپنی سمجھداری سمجھ رہا ہے۔
آفریں ہے میری قوم پہ! بجائے ہاتھ کی انگلیوں کو یکجا کرکے ایک مضبوط مکا بننے کے، ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر انگلیاں بنے، جنھیں میو سمیت دوسری قوموں نے آسانی سے توڑ دیا۔ آرائیں قوم کی زندگی میں اگر "آہ" ہے، تو اس کا باعث ان کا انتشار ہے، آپس کی نااتفاقی ہے اور میو قوم کی زندگیوں میں جو "واہ" ہے، وہ ان کے اتفاق کا نتیجہ ہے۔
اچھا! مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ یہ عام سا آرٹیکل اگر ہر آرائیں پڑھ لے، تو ان میں کھلبلی مچ اٹھے گی، منتشر قوم ایک دم سے صف بندی کرکے اپنی زائل قوتیں بحال کرکے ترقی کی راہ پہ بگٹٹ دوڑنا شروع کر دے گی۔
دراصل نااتفاقی کا یہ جو مرض ہے، یہ ان کے ڈی۔ این۔ اے میں ہے، ان کے جینز میں ہے۔ طبیعتیں ان کی پک چکی ہیں۔ کیونکہ یہ اخلاقی بیماری آج کی تھوڑی ہے! نسلوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایسے امراض آسانی سے نہیں جاتے۔ ویسے بھی انسان فکری طور پر تساہل پسند ہے۔ اپنے آبا اور اپنے اجداد سے مالی وراثت کی طرح فکری وراثت بھی جوں کی توں حاصل کرتا ہے۔ اس میں ردوبدل یا اس سے بغاوت اسے کسی طور گوارا نہیں۔ جیسے "وڈیاں لا کے نئیں کھادی" ایسے ہی ان کی سوچ بھی اجتماعیت میں کبھی نہیں ڈھلے گی۔ یہ ہمیشہ مشرقی، مغربی، شمالی، جنوبی رہیں گے۔
میری رائے میں پاکستان میں ہٹلر کی بھی حکومت ہو اور اس کی پشت پہ اسٹیبلشمنٹ ہو اور اس کا بندہ پتوکی میں ووٹ لینے آئے، تو آرائیوں کو ووٹ اسے ہی دینا چاہیے۔ وجہ؟ آپ کے ووٹ نہ دینے کے باوجود وزیراعظم وہی ہوگا۔ تو پھر کڑوا گھونٹ بھر کر اسے ووٹ دو اور اپنے بچوں کو نوکریاں دلواؤ، اس سے بزنس لو۔ کل تک نکئی حضرات پاور میں تھے۔ تو انھیں ووٹ دینا چاہیے تھا۔ آج رانا قوم اقتدار میں ہے، تو ووٹ کا حقدار انھیں قرار دینا چاہیے۔
جیسے سائنسدان گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کے بارے میں ہے۔ چرچ نے اُن پر زمین کے سورج کے گرد گھومنے والے نظریے (Heliocentrism) کی وجہ سے مقدمہ چلایا۔ سزا سے بچنے کے لیے گلیلیو نے بظاہر اپنی بات واپس لے لی، مگر عدالت سے نکلتے ہوئے آہستہ سے کہا: میرے ناں کہنے کے باوجود یہ پھر بھی گھومتی رہے گی۔
یعنی جھوٹ بول کر ان کمبخت پادریوں (اہلِ مذہب) سے اپنی جند چھڑاؤ۔

